Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 206
اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یُسَبِّحُوْنَهٗ وَ لَهٗ یَسْجُدُوْنَ۠۩  ۞   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ عِنْدَ : نزدیک رَبِّكَ : تیرا رب لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر نہیں کرتے عَنْ : سے عِبَادَتِهٖ : اس کی عبادت وَيُسَبِّحُوْنَهٗ : اور اس کی تسبیح کرتے ہیں وَلَهٗ : اور اسی کو يَسْجُدُوْنَ : سجدہ کرتے ہیں
بیشک جو لوگ آپ کے رب کے نزدیک ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں۔ اور اس کو سجدہ کرتے ہیں۔
فرشتوں کی تسبیح اور عبادت : اس کے بعد اللہ جل شانہٗ نے ملاء اعلیٰ کے فرشتوں کی تسبیح اور عبادت کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ بلاشبہ جو تیرے رب کے مقرب بندے ہیں وہ اپنے رب کی عبادت سے استکبار نہیں کرتے یعنی اپنی ذات کو بڑا نہیں سمجھتے جس کی وجہ سے اللہ کی عبادت سے رو گردانی کریں، وہ اپنے آپ کو اللہ کا بندہ جانتے اور مانتے ہیں اور بندگی کے آداب بجا لاتے ہیں اور اپنی مملوکیت اور عاجزی کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اس کے لیے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس کو سورة نساء میں یوں بیان فرمایا (لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰہِ وَ لَا الْمَلآءِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ وَ مَنْ یَّسْتَنْکِفْ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَ یَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُھُمْ اِلَیْہِ جَمِیْعًا) (مسیح نے اور مقرب فرشتوں نے ہرگز اس سے استنکاف نہیں کیا کہ اللہ کے بندے بنیں اور جو شخص اس کی عبادت سے استنکاف کرے گا تو وہ انہیں عنقریب دوزخ میں جمع فرما دے گا) (استنکاف کا معنی یہ ہے کہ اپنے کو بڑا سمجھے اور کسی کام کو اپنی شان کے خلاف جانے) ۔ سجدۂ تلاوت کا بیان : اس آیت پر سورة اعراف ختم ہو رہی ہے اور یہ پہلی جگہ ہے جہاں قرآن مجید میں سجدۂ تلاوت آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے حضرات ملائکہ ( علیہ السلام) کا ذکر فرمایا کہ وہ اپنے اندر بڑائی نہیں کرتے جس کی وجہ سے اپنے رب کی عبادت سے منہ موڑیں بلکہ وہ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور مومن بندوں کے لیے سجدۂ تلاوت مشروع فرمایا تاکہ وہ بھی ملاء اعلیٰ کے رہنے والوں کی موافقت میں سجدہ ریز ہوجائیں، یہ سجدۂ تلاوت شیطان کے لیے بہت بڑی مار ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جب ابن آدم آیت سجدہ پڑھتا ہے پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا وہاں سے ہٹ جاتا ہے کہتا ہے کہ ہائے میری بربادی ابن آدم کو سجدہ کا حکم ہوا تو اس نے سجدہ کرلیا لہٰذا اس کے لیے جنت ہے، اور مجھے سجدہ کا حکم دیا گیا اور میں نے انکار کیا لہٰذا میرے لیے دوزخ ہے۔ (رواہ مسلم کمافی المشکوٰۃ ص 84 ج 1) مسئلہ : سجدۂ تلاوت کرنے لگے تو اس میں تکبیر تحریمہ کی طرح ہاتھ اٹھانا نہیں ہے بلکہ اللہ اکبر کہتا ہوا سجدہ میں چلا جائے اور ایک سجدہ کرے تکبیر کہتے ہوئے سر اٹھائے اس میں تشہد اور سلام نہیں ہے۔ مسئلہ : جیسے آیت سجدہ پڑھنے والے پر سجدہ واجب ہوتا ہے ایسے ہی سننے والے پر بھی واجب ہوتا ہے اگرچہ اس نے ارادہ کر کے نہ سنا ہو، البتہ تلاوت کرنے والے کے لیے بہتر یہ ہے کہ آیت سجدہ حاضرین کے سامنے زور سے نہ پڑھے، ہاں اگر حاضرین سننے ہی کے لیے بیٹھے ہیں تو سجدۂ تلاوت زور سے پڑھ دے۔ سجدۂ تلاوت کی دعاء سجدۂ تلاوت میں اگر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم تین مرتبہ کہے تو یہ بھی درست ہے اور اگر دعاء ماثور پڑھ لے تو زیادہ بہتر ہے۔ دعاء ماثور یہ ہے۔ سَجَدَ وَجْھِیْ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَ شَقَّ سَمْعَہٗ وَ بََصَرَہٗ بِحَوْلِہٖ وَ قُوَّتِہٖ (رواہ ابو داؤد والترمذی و النسائی کمافی المشکوٰۃ ص 94) (میرے چہرہ نے اس ذات کے لیے سجدہ کیا جس نے اسے پیدا فرمایا اور اس میں سے کان اور آنکھ نکال دیئے اپنی قدرت سے) ۔ تم تفسیر سورة الاعراف بحمد اللہ تعالیٰ و حولہ و قوتہ و توفیقہ و تیسیرہ و لہ الحمد اولا و آخرا
Top