Mafhoom-ul-Quran - Ibrahim : 35
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَؕ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم رَبِّ : اے میرے رب اجْعَلْ : بنا دے هٰذَا الْبَلَدَ : یہ شہر اٰمِنًا : امن کی جگہ وَّاجْنُبْنِيْ : اور مجھے دور رکھ وَبَنِيَّ : اور میری اولاد اَنْ : کہ نَّعْبُدَ : ہم پرستش کریں الْاَصْنَامَ : بت (جمع)
اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ میرے رب ! اس شہر کو لوگوں کے لیے امن کی جگہ بنا دے مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں بچائے رکھ۔
جد الانبیاء سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی دعائیں تشریح : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بیٹے حضرت اسمعیل (علیہ السلام) اور اپنی بیوی حضرت ہاجرہ (علیہا السلام) کو اللہ کے حکم سے وادیٔ فاران کے ایک چٹیل میدان میں چھوڑ آئے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر یہاں اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ پچھلی آیات میں شرک کی مذمت اور توحید کی تعریف کا بیان تھا تو یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حنیف کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ آپ کو حنیف کا لقب ملا۔ حنیف، یعنی یکسو ہو کر عبادت کرنے والا صرف اور صرف اللہ سے لو لگا کر اسی کی عبادت کرنے والا۔ کیونکہ آپ نے توحید کے سبق کو سب سے زیادہ محنت اور کامیابی سے پھیلایا، اس لیے دین ابراہیمی کو دین حنیف کہا گیا ہے۔ آپ کو نبیوں میں یہ ربتہ بڑی مشقت اور آزمائشوں سے گزرنے کے بعد ملا تھا۔ جیسا کہ آپ کے بارے میں پہلے بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔ آپ کی بہت بڑی آزمائشوں میں سے ایک بڑی آزمائش یہ ہے کہ آپ نے اپنے بچے اور بیوی کو بیابان میں چھوڑ دیا صرف اللہ کے سہارے۔ اور اللہ سے ان کی اور تمام مسلمانوں کی اور شہر مکہ کے لیے دعائیں کی۔ دعا تو سب انسان ہی مانگتے ہیں مگر پیغمبروں کے دعا کرنے کا انداز اور سلیقے میں فرق ہوتا ہے جیسا کہ آپ نے دعا کی۔ آپ کی دعا کے دو جز ہیں ایک یہ کہ مکہ کو مکمل امن و سکون کی جگہ بنا دے اور دوسرے یہ کہ میری تمام اولاد کو بت پرستی سے ہمیشہ کے لیے دور رکھنا۔ یہ دونوں ہی باتیں انسانی زندگی کی نجات کا ذریعہ ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کیونکہ جب تک دل و دماغ کو اور روح کو امن و سکون حاصل نہ ہو دنیاوی مال و دولت سکون کا باعث نہیں بن سکتے۔ انہوں نے اولاد کے لیے ایمان اور امن و سکون کی دعا کی۔ معلوم ہوا کہ باپ کے فرائض میں اولاد کی اصلاح بھی شامل ہے۔ پھر دعا کرتے ہیں کہ میں نے اپنی پوری آل اولاد کو بت پرستی سے دور رہنے کی سخت تاکید کردی ہے۔ تو اب جو میری راہ اختیار کریں گے، یعنی توحید پر قائم رہیں گے وہ تو میرے ہوں گے اور جو اس راہ سے ہٹ کر کفر و شرک اور بت پرستی اختیار کریں گے تو پھر وہ ہم میں سے نہ ہوں گے۔ تو ایسے لوگوں کے لیے آپ دعا کرتے ہیں کہ ” جو میرا کہلا کر میرے راستے سے ہٹ گیا وہ گمراہ ہوگیا، اس کا معاملہ تیرے ساتھ ہے تو ہی ان سب کا والی ہے تو رب ہے اور تیری صفت غفور رحیم ہے۔ تیسری دعا آپ یہ کرتے ہیں کہ اے الہ العلمین میں نے اپنی اولاد کو تیرے سہارے خانہ کعبہ کے پاس ویران صحرا میں اس لیے چھوڑ دیا ہے کہ وہاں نماز قائم کریں۔ اب آپ ہی لوگوں کی توجہ اس جگہ کی طرف کروائیں یعنی آبادی کے سامان کردیں اور ان کے کھانے پینے کے لیے بہترین اسباب پیدا کردیں۔ تاکہ یہ لوگ امن و سکون سے رہیں اور آپ کے شکر گزار بندے بن کر پاکیزہ زندگیاں گزاریں۔ اللہ کے ہر کام اور ہر حکم میں حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ آپ کی آزمائش کے علاوہ دوسری حکمت خانہ کعبہ کی تعمیرحضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کروانا مقصود تھی کیونکہ بیت اللہ طوفان نوح میں بےنشان ہوگیا تھا تو اس کی دوبارہ تعمیر آپ سے کروائی۔ امام قرطبی (رح) تعالیٰ نے سورة بقرہ کی تفسیر میں ثابت کیا ہے کہ سب سے پہلے بیت اللہ کی تعمیر حضرت آدم (علیہ السلام) نے کی تھی، جب ان کو زمین پر اتارا گیا۔ آپ اور آپ کی اولاد اس کا طواف کرتے تھے۔ طوفان نوح کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہی پرانی بنیادوں پر خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ پھر عرب کے جاہلیت کے زمانہ میں یہ گھر تقریباً ختم ہوگیا تھا جس کی تعمیر قریش نے دوبارہ کی۔ اس تعمیر میں ابوطالب اور حضرت محمد ﷺ نے نبوت سے پہلے حصہ لیا۔ اور اب وہ مسجد حرام مسلمانوں کا مرکز اور ارکان اسلام میں سے ایک بڑے رکن ” حج “ کا مقام بنا ہوا ہے۔ اور یہ انعام ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے شیر خوار بچے اور بیوی کو وہاں بیابان میں چھوڑ دیا تو پھر مڑ کر ان کی طرف نہ دیکھا۔ مگر دل تو فکر اور جدائی سے بےچین تھا تو پھر دعا فرمائی کہ یا اللہ ! آپ تو ہماری ظاہری اور اندرونی ہر قسم کی پریشانی سے خوب واقف ہیں کیونکہ آپ تو علیم وخبیر ہیں۔ (جاننے والے خبر رکھنے والے) آپ کا علم تو اس قدر وسیع اور مکمل ہے کہ آپ تو آسمان و زمین کی ہر ہر چیز کا ہر وقت ہر صورت میں علم رکھتے ہیں۔ پھر دعا مانگنے کا ایک بہترین ادب اس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سکھایا کہ پہلے اس کی دی گئی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے جیسا کہ آپ نے دعا سے پہلے اپنی اس نعمت کا شکریہ ادا کیا فرماتے ہیں ” شکر ہے اس ذات والا کا جس نے بڑھاپے میں مجھے نیک اولاد اسماعیل اور اسحاق (علیہما السلام) کی صورت میں عطا کی اور پھر دعا کی کہ ہم سب کی حفاظت کرنا کیونکہ آپ دعائوں کو سننے اور پورا کرنے والے ہیں۔ پھر دعائوں میں مشغول ہوگئے اور فرمایا ” اے اللہ ! مجھے اور میری آل اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا دینا “ اور پھر یہ دعا کہ ” اے ہمارے رب ! مجھے میری آل اولاد کو اور تمام مومنین کو قیامت کے دن بخش دینا۔ “ تمام آیات کو پڑھنے کے بعد سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ بار بار عجزو انکساری سے دعا کی جائے نعمتوں اور برکتوں کا شکر ادا کیا جائے اور اللہ کی تعریف و تسبیح کی جائے تو دعا کی قبولیت یقینی ہوجاتی ہے۔ حدیث میں دعا کی اہمیت یوں بیان کی گئی ہے۔ ” دعا عبادت ہے۔ “ (سنن ترمذی) ایک اور حدیث میں آتا ہے۔ ” دعا مومن کا ہتھیار ہے، دین کا ستون اور آسمان و زمین کی روشنی ہے۔ “ مکہ مکرمہ کی تمام رونقیں، سعادتیں، خانہ کعبہ کی برکت، آب زمزم اور مقام حج، ارکان حج یہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعائوں اور آزمائشوں میں پورا اتر کر ایک بہترین مسلم ہونے کی یاد گار میں ہی کیا جا رہا ہے اور تاقیامت کیا جاتا رہے گا۔ توکل، بندگی اور فضل الٰہی طلب کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ” دعا “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعائیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں یہ عالمگیر دعائیں ہیں، اور تمام دنیا کے مسلمان اپنی نمازوں میں یہ دعائیں خاص طور سے مانگتے ہیں۔ ان دعائوں کی یہ بھی ایک بہت بڑی فضیلت ہے کہ تا قیامت یہ دعائیں پڑھی جاتی رہیں گی۔
Top