Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 8
وَ الْوَزْنُ یَوْمَئِذِ اِ۟لْحَقُّ١ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَالْوَزْنُ : اور وزن يَوْمَئِذِ : اس دن الْحَقُّ : حق فَمَنْ : تو جس ثَقُلَتْ : بھاری ہوئے مَوَازِيْنُهٗ : میزان (نیکیوں کے وزن فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
اور اس دن وزن واقع ہوئے والا ہے۔ سو جن کے وزن بھاری ہوئے ایسے لوگ کامیاب ہوں گے
اعمال کا وزن، بھاری اوزان والوں کی کامیابی : اللہ رب العزت ہمیشہ سے ساری مخلوق کے اعمال سے واقف ہے اگر قیامت کے میدان میں صرف اپنی معلومات کی بناء پر اعمال کی جزا و سزا دے تو اس کو اس کا بھی حق ہے، لیکن میدان حشر میں ایسا نہ کیا جائے گا بلکہ بندوں کے سامنے ان کے اعمال نامے پیش کیے جائیں گے وزن ہوگا گواہیاں ہوں گی، اور مجرمین انکاری بھی ہوں گے اور دلیل سے جرم کا اثبات بھی کیا جائے گا تاکہ سزا بھگتنے والے یوں نہ کہہ سکیں کہ ہم کو ظلماً بلا وجہ عذاب میں ڈالا گیا۔ اسی کو فرمایا (وَ الْوَزْنُ یَوْمَءِذِ نِ الْحَقُّ ) اور اس دن وزن کرنا حق ہے سو جن کی تولیں بھاری پڑیں وہی لوگ با مراد ہوں گے، اور جن کی تولیں ہلکی پڑیں سو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کا نقصان کیا، اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ وزن اعمال کا ذکر یہاں اعراف میں بھی ہے اور سورة مومنون رکوع (2) میں بھی ہے اور سورة القارعہ میں بھی ہے وہاں فرمایا ہے۔ (فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُمُّہٗ ھَاوِیَۃٌ) سو جس کے وزن بھاری ہوئے وہ خوشی کی زندگی میں ہوگا اور جس کے وزن ہلکے ہوئے تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ یعنی دوزخ ہے۔ حضرت سلمان ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت سید عالم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز (اعمال تولنے کی) ترازو رکھ دی جائے گی (اور وہ اس قدر لمبی چوڑی ہوگی کہ) اگر اس میں سارے آسمان و زمین رکھ کر وزن کیے جائیں تو سب اس میں آجائیں۔ اس کو دیکھ کر فرشتے بار گاہ خداوندی میں عرض کریں گے کہ یہ کس کے لیے تولے گی ؟ اللہ جل شانہٗ فرمائیں گے کہ میں اپنی مخلوق میں سے جس کے لیے (حساب کرنے کے واسطے) تول قائم کروں (اس کے لیے تولے گی) یہ سن کر فرشتے عرض کریں گے کہ اے اللہ ! آپ پاک ہیں جیسا عبادت کا حق ہے ہم نے ایسی عبادت آپ کی نہیں کی۔ (الترغیب و الترہیب ص 425 ج 4 رواہ الحاکم و قال صحیح علیٰ شرط مسلم) حضرت انس ؓ آنحضرت سید عالم ﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا (قیامت کے روز) ترازو پر ایک فرشتہ مقرر ہوگا (اعمال کو وزن کرنے کے لیے) انسان اس ترازو کے پاس لائے جاتے رہیں گے، جو آئے گا ترازو کے دونوں پلڑوں کے درمیان کھڑا کردیا جائے گا۔ پس اگر اس کے تول بھاری ہوئے تو وہ فرشتہ ایسی بلند آواز سے پکار کر اعلان کرے گا جسے ساری مخلوق سنے گی کہ فلاں ہمیشہ کے لیے سعادت مند ہوگیا، اب اس کے بعد بد نصیب نہ ہوگا اور اگر اس کے تول ہلکے رہے تو وہ فرشتہ ایسی بلند آواز سے پکار کر اعلان کرے گا جسے ساری مخلوق سنے گی کہ فلاں ہمیشہ کے لیے نامراد ہوگیا۔ اب کبھی اس کے بعد خوش نصیب نہ ہوگا (الترغیب و الترہیب ص 425 از بزار و بیہقی) حضرت شاہ عبدالقادر صاحب ؓ موضح القرآن میں لکھتے ہیں کہ ہر شخص کے عمل وزن کے موافق لکھے جاتے ہیں ایک ہی کام ہے اگر اخلاق و محبت سے حکم شرعی کے موافق کیا اور برمحل کیا تو اس کا وزن بڑھ گیا اور دکھاوے یا ریس کو کیا یا موافق حکم نہ کیا یا ٹھکانے پر نہ کیا تو وزن گھٹ گیا آخرت میں وہ کاغذ تلیں گے جس کے نیک کام بھاری ہوئے تو برائیوں سے در گزر ہوا اور (جس کے نیک کام) ہلکے ہوئے تو پکڑا گیا۔ بعض علماء نے فرمایا کہ قیامت کے روز اعمال کو جسم دے کر حاضر کیا جائے گا اور یہ جسم تلیں گے اور ان جسموں کے وزنوں کے ہلکا یا بھاری ہونے پر فیصلے ہوں گے۔ کاغذوں کا تلنا یا اعمال کو جسم دے کر تولا جانا بعید نہیں ہے۔ اور اعمال کو بغیر وزن دیئے یونہی تول دینا بھی قادر مطلق کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔ آج جبکہ سائنس کا دور ہے اور ایجادات روز افزوں ترقی پر ہیں اعمال کا تول میں آجانا بالکل سمجھ میں آجاتا ہے۔ یہ عاجز بندے جن کو اللہ جل جلالہٗ و علم نوالہٗ نے تھوڑی سی سمجھ دی ہے تھرما میٹر کے ذریعے جسم کی حرارت کی مقدار بتا دیتے ہیں۔ اور اسی طرح کے بہت سے آلات ہیں جو اجسام کے علاوہ دوسری چیزوں کی مقدار معلوم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں تو اس وحدہ لا شریک کی قدرت سے یہ کیسے باہر مانا جائے کہ عمل تول میں نہ آسکیں۔ شاید کسی کو یہ شبہ ہو کہ اعمال تو حسی وجود نہیں رکھتے اور وجود میں آنے کے ساتھ ہی فنا ہوتے رہتے ہیں۔ پھر آخرت میں کیونکر جمع شدہ ملیں گے ؟ اس شبہ کی موجودہ دور میں کوئی حیثیت نہیں رہی کیونکہ اب تو ٹیلی ویژن اور وی سی آر نے بتادیا کہ حرکات سکنات اور آواز کو ریکارڈ کیا جاسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو الفاظ و کلمات اور حرکات و سکنات کو گرفت میں لا کر اکٹھا کرنے اور ریکارڈ میں لانے کی طاقت دی ہے تو وہ خود اس پر ضرور قادر ہے کہ اپنی مخلوق کے اعمال و افعال کا مکمل ریکارڈ تیار رکھے۔ جس میں سے ایک ذرہ اور شوشہ بھی غائب نہ ہو۔ اور حسی طور پر قیامت کے روز ان کا وزن سب کے سامنے عیاں اور ظاہر ہوجائے۔ (لِیَجْزِیَ اللّٰہُ کُلَّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ) صاحب تفسیر مظہری علامہ سیوطی (رح) سے نقل فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اس میں اختلاف ہے کہ مومنین کے اعمال کا صرف وزن ہوگا، یا کافروں کے اعمال بھی تولے جائیں گے ؟ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ صرف مومنین کے اعمال تولے جائیں گے (کیونکہ) کافروں کی نیکیاں تو اکارت جائیں گی۔ پھر جب نیکی کے پلڑہ میں رکھنے کے لیے کچھ نہ رہا تو ایک پلڑا سے کیا تو لا جائے گا اس جماعت نے (فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا) سے استدلال کیا ہے۔ دوسری جماعت کہتی ہے کہ کفار کے اعمال بھی تولے جائیں گے، لیکن وہ بےوزن نکلیں گے ان کا استدلال آیت (وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فِیْ جَھَنَّمَ خٰلِدُوْنَ ) سے ہے اور جن کی تول ہلکی نکلی سو یہ وہ لوگ ہیں جو ہار بیٹھے اپنی جان، یہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔ استدلال (ھُمْ فیھَا خٰلِدُوْنَ ) سے ہے۔ (یہ سورة مومن کی آیت ہے) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ہلکی تول نکلنے والوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے اس سے معلوم ہوا کہ کافروں کے اعمال بھی تولے جائیں گے کیونکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ مومن کوئی بھی دوزخ میں ہمیشہ نہ رہے گا۔ اس کے بعد صاحب تفسیر مظہری علامہ قرطبی (رح) کا قول نقل فرماتے ہیں کہ ہر ایک کے اعمال نہیں تولے جائیں گے (بلکہ اس میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ) جو لوگ بغیر حساب جنت میں جائیں گے یا جن کو دوزخ میں بغیر حساب میدان حشر قائم ہوتے ہی جانا ہوگا۔ ان دونوں جماعتوں کے اعمال نہ تولے جائیں گے اور ان کے علاوہ باقی مومنین و کفار کے اعمال کا وزن ہوگا۔ صاحب تفسیر مظہری فرماتے ہیں کہ علامہ قرطبی کا یہ اشارہ دونوں جماعتوں کے مسلکوں اور دونوں آیتوں (آیت سورة کہف اور آیت سورة مومنون) کے مطالب کو جمع کردیتا ہے۔ حضرت حکیم الامت قدس سرہ (بیان القرآن میں) سورة اعراف کے شروع میں ایک تمہید مفید کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ ” پس اس میزان میں ایمان و کفر بھی وزن کیا جائے گا اور اس وزن میں ایک پلہ خالی رہے گا اور ایک پلہ میں اگر وہ مومن ہے تو ایمان اور اگر کافر ہے تو کفر رکھا جائے گا۔ جب اس تول سے مومن و کافر متمیز ہوجائیں گے (تو) پھر خاص مومنین کے لیے ایک پلہ میں ان کے حسنات اور دوسرے پلہ میں ان کے سیئات غالب رکھ کر ان کے اعمال کا وزن ہوگا اور جیسا کہ درمنثور میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اگر (مومن کے) حسنات غالب ہوئے تو جنت اور اگر سیئات غالب ہوئے تو دوزخ اور اگر دونوں برابر ہوئے تو اعرف تجویز ہوگی پھر خواہ شفاعت سے قبل سزا خواہ سزا کے بعد مغفرت ہوجائے گی (اور سیئات غالب ہونے والے مومن بندے اور اعراف والے جنت میں داخل ہوجائیں گے) ۔
Top