Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 9
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ
وَمَنْ : اور جس خَفَّتْ : ہلکے ہوئے مَوَازِيْنُهٗ : اس کے وزن فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے خَسِرُوْٓا : نقصان کیا اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں بِمَا كَانُوْا : کیونکہ تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں سے يَظْلِمُوْنَ : ناانصافی کرتے
اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے سو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی جانوں کا نقصان کرلیا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظلم کرتے تھے۔
کفار کی نیکیاں بےوزن ہونگی : سورۂ کہف کے آخری رکوع میں ارشاد ہے کہ (قُلْ ھَلْ نُنَبِّءُکُمْ بالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنَعًا اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَ لِقَآءِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا) آپ فرمادیجیے کیا ہم تم کو ایسے لوگ بتائیں جو اعمال کے اعتبار سے بڑے گھاٹے میں ہیں (یہ) وہ لوگ ہیں جن کی کوشش اکارت گئی دنیاوی زندگی میں وہ سمجھتے رہے کہ اچھے کام کر رہے ہیں (یہ) وہی ہیں جو منکر ہوئے اپنے رب کی آیتوں کے اور اس کی ملاقات کے سو اکارت گئے ان کے عمل پس ہم قیامت کے دن ان کے لیے تول قائم نہ کریں گے۔ یعنی سب سے زیادہ ٹوٹے اور خسارہ والے حقیقت میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے برسہا برس دنیا میں گزارے اور محنت و کوشش کر کے نفع کماتے رہے اور دنیا جوڑ کر خوش ہوئے اور یہ یقین کرتے رہے کہ ہم بڑے کامیاب اور با مراد ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ضرور ایسا ہوگا کہ بعض بھاری بھر کم موٹے بدن والے آدمی اس حال میں آئیں گے کہ اللہ کے نزدیک ان کا وزن مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا پھر فرمایا کہ تم لوگ (فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا) کو پڑھ لو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 484 از بخاری و مسلم) صاحب تفسیر مظہری (فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافروں کے اعمال کا کوئی اعتبار یا قدر و منزلت نہ ہوگی۔ پھر حضور اقدس ﷺ کا ارشاد گرامی بروایت حضرت ابوہریرہ ؓ نقل فرمایا ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ یہود و نصاریٰ اور مشرکین و کفار جو دنیا کی زندگی میں اپنے خیال میں نیک کام کرتے ہیں مثلاً پانی پلانے کا انتظام کرتے ہیں اور مجبور کی مدد کر گزرتے ہیں، یا اللہ کے ناموں کا ورد رکھتے ہیں الیٰ غیر ذالک۔ اس قسم کے کام بھی آخرت میں ان کو نجات نہ دلائیں گے۔ سادھو اور سنیاسی جو بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں اور مجاہدہ کر کے نفس کو مارتے ہیں۔ اور یہود و نصاریٰ کے راہب اور پادری جو نیکی کے خیال سے شادی نہیں کرتے ان کے اس قسم کے تمام افعال بےسود ہیں، آخرت میں کفر کی وجہ سے کچھ نہ پائیں گے۔ کافر کی نیکیاں مردہ ہیں۔ وہ قیامت کے روز نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوں گے۔ پھر صاحب تفسیر مظہری آیت کے ان الفاظ کی دوسری تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ معنی ہیں کہ ان (کافروں) کے لیے ترازو نصیب ہی نہ کی جائے گی اور تولنے کا معاملہ ان کے ساتھ ہونا ہی نہیں کیونکہ ان کے عمال وہاں اکارت ہوجائیں گے لہٰذا سیدھے دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے۔ آیت کے الفاظ مذکورہ کے تیسرے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں یا یہ معنی ہیں کہ کفار اپنے جن اعمال کو نیک سمجھتے ہیں قیامت کے ترازو میں ان کا کچھ وزن نہ نکلے گا (کیونکہ وہاں اسی نیک کام کا وزن ہوگا جو ایمان کی دولت سے مشرف ہوتے ہوئے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے) دنیا میں کیا گیا تھا۔
Top