Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 106
وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَ اِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور مُرْجَوْنَ : وہ موقوف رکھے گئے لِاَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم پر اِمَّا : خواہ يُعَذِّبُھُمْ : وہ انہیں عذاب دے وَاِمَّا : اور خواہ يَتُوْبُ عَلَيْهِمْ : توبہ قبول کرلے ان کی وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا معاملہ اللہ کا حکم آنے سے مؤخر کیا ہوا ہے۔ وہ انہیں عذاب دے یا ان کی توبہ قبول فرمائے اور اللہ علیم ہے حکیم ہے۔
پھر فرمایا (وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰہِ اِمَّا یُعَذِّبُھُمْ وَ اِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْھِمْ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ) (اور جو لوگ ایسے ہیں جن کا معاملہ اللہ کا حکم آنے تک ملتوی ہے وہ انہیں عذاب دے یا ان کی توبہ قبول فرمائے) اس آیت میں ان تین صحابیوں کا ذکر ہے جو بلا عذر تبوک میں جانے سے رہ گئے تھے۔ انہیں اس پر ندامت بھی تھی اور سچائی کے ساتھ انہوں نے عرض کردیا تھا کہ ہم واقعی بلا عذر رہ گئے۔ لیکن ان لوگوں کی طرح سے توبہ کے لیے پیش بھی نہ ہوئے جنہوں نے اپنی جانوں کو ستونوں سے باندھ دیا تھا۔ یہ تین آدمی کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے بول چال کرنے اور ان کے ساتھ ملنے جلنے سے صحابہ کو منع فرما دیا تھا۔ جب ان کو یہ تکلیف بھاری پڑی اور زمین ان پر تنگ ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ اس کا تفصیلی واقعہ آئندہ رکوع کی آیت (وَ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا) کی تفسیر میں بیان کیا جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔
Top