Anwar-ul-Bayan - Hud : 87
قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا١ؕ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ
قَالُوْا : وہ بولے يٰشُعَيْبُ : اے شعیب اَصَلٰوتُكَ : کیا تیری نماز تَاْمُرُكَ : تجھے حکم دیتی ہے اَنْ : کہ نَّتْرُكَ : ہم چھوڑ دیں مَا يَعْبُدُ : جو پرستش کرتے تھے اٰبَآؤُنَآ : ہمارے باپ دادا اَوْ : یا اَنْ نَّفْعَلَ : ہم نہ کریں فِيْٓ اَمْوَالِنَا : اپنے مالوں میں مَا نَشٰٓؤُا : جو ہم چاہیں اِنَّكَ : بیشک تو لَاَنْتَ : البتہ تو الْحَلِيْمُ : بردبار (باوقار) الرَّشِيْدُ : نیک چلن
انہوں نے کہا شعیب ! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ہم انکو ترک کردیں۔ یا اپنے مال میں جو تصرف کرنا چاہیں تو نہ کریں۔ تم تو بڑے نرم دل اور راست باز ہو۔
(11:87) اصلوتک تامرک (مخول سے کہتے ہیں کیا) تمہاری نماز میں تمہیں یہی حکم دیتی ہے ۔ او ان نفعل فی اموالنا ما نشؤ۔ ای اوان نترک فعلنا فی اموالنا ما نشؤ۔ (کہ ہم اپنے مالوں میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنا چھوڑدیں۔ الکشاف ذیلی نوٹ نمبر 3) انک لانت الحلیم الرشید۔ الحلیم۔ بردباد ۔ تحمل والا۔ باوقار۔ الحلم سے جس کے معنی ہیں نفس و طبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑک نہ اٹھے۔ بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے اس کی جمع احلام ہے۔ آیت ام تأمرہم احلامہم (52:32) میں بعض کے نزدیک عقلیں مراد ہیں۔ اصل میں حلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے۔ آیت ہذا میں اکثر مفسرین نے حلیم کے معنی عقل مند دانا لیا ہے گو بعض نے اس کے اصلی معنوں میں لیا یعنی بردبار۔ تحمل والا۔ جو دوسروں کے گناہ اور غلطیوں کو تحمل کے ساتھ برداشت کرے۔ الرشید۔ نیک چال ۔ راست باز۔ شائستہ۔ رشد سے بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے۔ الرشد والرشد۔ غی کی ضد ہے۔ اور ہدایت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے باب نصر۔ سمع۔ دونوں سے آتا ہے۔ اس جملہ کا لفظی ترجمہ یوں ہے۔ تحقیق تو بڑا عقلمند اور راستباز دیندار ہے۔ لیکن یہ الفاظ استہزاء کہے گئے ہیں مراد ان کی ان صفات کی ضد ہے یعنی تم تو بڑے احمق اور کج راہ ہو یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم کسی کنجوس مکھی چوس کو کہیں کہ کیا کہنے تمہاری سخاوت کے اگر حاتم طائی بھی تمہیں دیکھ لے تو تمہارے آگے سجدہ میں گرپڑے۔ یا یہ کہ تم تو اچھے بھلے سمجھ دار اور دیندار آدمی ہو تم سے ایسی باتوں کی امید نہ تھی۔ کہ طعن و تشنیع کا نشانہ ہمیں ہی بنائو۔ یا یہ کہ تم تو بردباد حلیم الطبع اور راست رو آدمی ہو جو دوسروں کی غلطیاں دیکھ کر تحمل سے کام لیتا ہے لیکن تم ہو کہ ان صفات سے متصف ہوتے ہوئے بھی ہمیں نکتہ چینی کا ہدف بناتے ہو۔
Top