Madarik-ut-Tanzil - Hud : 87
قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا١ؕ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ
قَالُوْا : وہ بولے يٰشُعَيْبُ : اے شعیب اَصَلٰوتُكَ : کیا تیری نماز تَاْمُرُكَ : تجھے حکم دیتی ہے اَنْ : کہ نَّتْرُكَ : ہم چھوڑ دیں مَا يَعْبُدُ : جو پرستش کرتے تھے اٰبَآؤُنَآ : ہمارے باپ دادا اَوْ : یا اَنْ نَّفْعَلَ : ہم نہ کریں فِيْٓ اَمْوَالِنَا : اپنے مالوں میں مَا نَشٰٓؤُا : جو ہم چاہیں اِنَّكَ : بیشک تو لَاَنْتَ : البتہ تو الْحَلِيْمُ : بردبار (باوقار) الرَّشِيْدُ : نیک چلن
انہوں نے کہا شعیب ! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ہم انکو ترک کردیں۔ یا اپنے مال میں جو تصرف کرنا چاہیں تو نہ کریں۔ تم تو بڑے نرم دل اور راست باز ہو۔
87: قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُکَ (کہنے لگے اے شعیب کیا تمہاری نماز) تَاْ مُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآ ؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْ اَمْوَالِنَا مَانَشٰٓؤُا (تمہیں حکم دیتی ہے کہ چھوڑ دیں ان معبودوں کو جنکی پوجا ہمارے آباء و اجداد کرتے تھے۔ یا ہم اپنے اموال میں جو ہم کرتے ہیں وہ چھوڑ دیں) حضرت شعیب (علیہ السلام) بہت زیادہ نفلی نماز پڑھتے تھے۔ ان کی قوم ان کو کہتی اس نماز کا کیا فائدہ آپ جواب میں فرماتے نماز محاسن و خوبیوں کا حکم دیتی ہے اور قبائح سے باز رکھتی ہے۔ اس پر بطور تمسخر کہنے لگے۔ اصلٰوتک تامرک کیا تمہاری نماز تمہیں حکم دیتی ہے کہ تو ہمیں ان کی عبادت کے ترک کا حکم دیتا ہے۔ مَایَعْبُدُ اٰبَاٰؤُنَا اَوْاَنْ نَّفْعَلَ (جن کی پوجا ہمارے آبائو اجداد کرتے تھے یا ہم کرنا چھوڑدیں) ہم وسعت و پھیلائو کرنا۔ فی اموالنا مانشؤا (اپنے اموال میں اپنی مرضی استعمال کرنا) پور ادینا اور کم کرنا یا یہ بھی درست ہے کہ نمازوں کو مجازًا امر بنایا جائے جیسا اللہ تعالیٰ نے مجاز اً ان کو ناہی قرار دیا ہے۔ اِنَّکَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ (بیشک تو حوصلے والا سمجھدار بنا پھرتا ہے) یعنی تو بیوقوف و گمراہ ہے۔ یہ استہزاء ً الٹ نام انہوں نے استعمال کیا۔ نمبر 2۔ تو ہمارے نزدیک حوصلہ مند سمجھدار ہے۔ مگر تو ہمارے ساتھ وہ سلوک نہیں کررہا جو تیرے حال کے مناسب ہے۔
Top