Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 13
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓئِرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا
وَ : اور كُلَّ اِنْسَانٍ : ہر انسان اَلْزَمْنٰهُ : اس کو لگا دی (لٹکا دی) طٰٓئِرَهٗ : اس کی قسمت فِيْ عُنُقِهٖ : اس کی گردن میں وَنُخْرِجُ : اور ہم نکالیں گے لَهٗ : اس کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت كِتٰبًا : ایک کتاب يَّلْقٰىهُ : اور اسے پائے گا مَنْشُوْرًا : کھلا ہوا
اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو (بصورت کتاب) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے اور قیامت کے روز (وہ) کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا
(17:13) وکل انسان الزمنہ۔ ہم نے ہر انسان کے لئے لازم کردیا ہے ۔ ہم نے اس کے لئے لگا دیا ہے۔ الزمنا۔ ماضی جمع متکلم۔ الزام سے ہُ ضمیر واحد مذکر غائب جس کا مرجع کل انسان ہے۔ طئرہ۔ ہر وہ پروں والا جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے اسے طائر کہتے ہیں۔ طار یطیر طیر وطیران وطیرورۃ پرندہ کا اڑنا۔ طائر کی جمع طیر ہے۔ جیسے راکب کی جمع رکب ہے۔ پرندے کے اڑنے کے معنی میں طار یطیر کا اکثر استعمال ہوا ہے مثلاً ولا طائر یطیر بجناحیہ (6:38) اور نہیں ہے کوئی پرندہ جو اپنے دونوں پروں سے اڑتا ہے (مگر یہ کہ وہ سب تمہاری ہی طرح کے گروہ ہیں) الطیر وتطیرفلان۔ اس کے اصل معنی تو کسی پرندہ سے شگون لینے کے ہیں پھر یہ ہر اس چیز کے لئے استعمال ہونے لگا جس سے برا شگون لیا جائے اور اسے منحوس سمجھا جائے۔ مثلاً قرآن مجید میں ہے انا تطیرنا بکم (36:18) ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں۔ اور ان تصبہم سیئۃ یطیروا (7:131) اگر ان کو سختی پہنچتی ہے تو بدشگونی لیتے ہیں یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو باعث نحوست سمجھتے ہیں۔ اور قالوا طائرکم معکم (36:19) انہوں نے کہا کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے۔ یہاں طائر سے مراد انسان کے نیک وبداعمال ہیں جو اپنے انجام میں بطور جزو لا ینفک اس کے ساتھ لازم کر دئیے گئے ہیں۔ طئرہ اس کے اعمال کی شامت اس کی بری قسمت الزمنہ فی عنقہ محاورہ عرب میں شدت لزوم اور کمال ربط کے اظہار کے لئے آتا ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں۔ انسانی اعمال کو طائر اس لئے کہا گیا ہے کہ عمل کے سرزد ہونے کے بعد انسان کو یہ اختیار نہیں رہتا کہ اسے واپس لے سکے۔ گویا وہ اس کے ہاتھوں سے اڑ جاتا ہے۔ وکل انسان الزمنہ طئرہ فی عنقہ اور ہم نے ہر انسان کی بری قسمت کو اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے۔ یلقہ۔ مضارع واحد مذکر غائب ہُ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع کتبا ہے لقی مصدر باب سمع وہ اس کو پائے گا۔ منشورا۔ اسم مفعول واحد مذکر منصوب۔ نشر سے۔ کھلا ہوا۔ المفردات میں ہے۔ النشر۔ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں۔ یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردینے پر بولا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں اور جگہ آیا ہے واذا الصحف نشرت (81:10) اور جب عملوں کے دفتر کھولے جائیں گے۔
Top