Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 105
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ لِقَآئِهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے انکار کیا بِاٰيٰتِ : آیتوں کو رَبِّهِمْ : اپنا رب وَلِقَآئِهٖ : اور اس کی ملاقات فَحَبِطَتْ : پس اکارت گئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل (جمع) فَلَا نُقِيْمُ : پس ہم قائم نہ کریں گے لَهُمْ : ان کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَزْنًا : کوئی وزن
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کے سامنے جانے سے انکار کیا تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے اور ہم قیامت کے دن ان کے لیے کچھ بھی وزن قائم نہیں کریں گے
(18:105) حبطت وہ اکارت ہوگئے، وہ ضائع ہوگئے۔ وہ مٹ گئے۔ ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ لا نقیم۔ مضارع منفی جمع متکلم اقامۃ (افعال) مصدر۔ ہم قائم نہیں کریں گے۔ الاقامۃ (افعال) فی المکانکے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اور اقامۃ الشیٔ(کسی چیز کی اقامۃ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہیں۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے قل یاھل الکتب لستم علی شیٔ حتی تقیموا التوارۃ والانجیل (5:68) کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل کو قائم نہیں رکھو گے تم کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نمازیوں کی تعریف کی گئی ہے وہاں اقامۃ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیئت کا ادا کرنا نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا مراد ہے۔ یہاں لا نقیم۔۔ وزناکے معنی ہیں کہ ہم اسے کوئی وزن نہیں دیں گے۔ ہمارے ہاں اس کی کوئی قدرو وقعت نہ ہوگی۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے یاتی ناس باعمال یوم القیامۃھی عندہم فی العظم کجبال تھا مۃ فاذا وزنوھا لم تزن شیئا۔ لوگ قیامت کے دن اپنے ایسے اعمال پیش کریں گے جو ان کے نزدیک تہامہ پہاڑ جتنے عظیم ہوں گے۔ لیکن جب ان کو فرشتے کریں گے تو ان کا کچھ بھی وزن نہ ہوگا۔
Top