Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 114
یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ
يُّرْسِلِ : بھیجے گا السَّمَآءَ : آسمان کو عَلَيْكُمْ : تم پر مِّدْرَارًا : خوب برسنے والا (بنا کر)
اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی مسجدوں میں خدا کے نام کا ذکر کئے جانے کو منع کرے اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ؟ ان لوگوں کو کچھ حق نہیں کہ ان میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بڑا عذاب ہے
(2:114) من استفہامیہ ہے۔ کون ہے ؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی کوئی نہیں ہے۔ اظلم۔ افعل تفضیل کا صیغہ ہے۔ زیادہ ظالم۔ ممن۔ مرکب ہے من حرف جار اور من موصولہ سے۔ اس شخص سے جو۔ منع۔ فعل یا فاعل۔ مسجد اللہ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول اول منع کا۔ ان یذکر فیہا اسمہ۔ کرلیا جائے ان میں خدا کا نام۔ یہ منع کا مفعول ثانی ہے۔ صاحب تفسیر مظہری نے اس کی مثال وما منعنا ان نرسل (17:59) دی ہے جس میں ان نرسل دوسرا مفعول ہے منع کا۔ وسعی فی خرابھا۔ میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب مسجد کے لئے ہے۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے خرابی معنوی بھی ہوسکتی ہے جس کسی کو مسجد میں اللہ کے ذکر سے منع کیا جائے یا حسی جب اس کوفی الواقع مسمار کیا جائے۔ مثلاً بصورت اول مشرکین مکہ کا مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکے رکھنا۔ اور بصورت دوم بخت نصر کا بیت المقدس کو اجاڑ دینا۔ مطلب یہ ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں جو اللہ کی مسجدوں کو اس کے ذکر سے روکے اور ان کی ویرانی کے درپے ہو۔ اولئک۔ اسم اشارہ بعید بصیغہ جمع مذکر۔ وہ لوگ۔ مراد وہ لوگ جو اللہ کی مساجد میں اس کا نام لینے سے روکتے ہیں اور ان کی خرابی کے درپے ہیں۔ ان مصدریہ ہے۔ ما کان لہم۔ ان کو لائق نہ تھا۔ خائفین۔ اسم فاعل جمع مذکر خائف واحد۔ خوف سے ڈرنے والے۔ یہ حال ہے ضمیر یدخلوھا سے۔ صاحب تفسیر ماجدی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں :۔ الاخائفین۔ یعنی (مسلمانوں کے رعب و دبدبہ سے ڈرتے ہوئے) یعنی داخلہ کی اجازت غیر مسلم کو صرف اس حال میں دی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کا محکوم ہو۔ اور اس کا داخلہ سرکشانہ نہیں محکومانہ ہو۔ قرآن مجید میں لفظ مساجد بصیغہ جمع ہے۔ لیکن ایک قول ہے کہ مساجد سے یہاں مراد مسجد حرام یا حرم کعبہ ہی ہے۔ المراد بالمساجد۔ المسجد الحرام (معالم عن ابن زید) اور اس شبہ کا کہ لفظ جمع سے مراد واحد کیونکر ہوگی ؟ جواب یہ دیا گیا ہے کہ محاورۂ زبان میں یہ جائز ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص ایک ہی نیک مرد کو ایذا پہنچائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ نیکوں کو ستانے والا بڑا ظالم ہے۔ کما نقول لمن اذی صالحا واحدا ! ومن اظلم من اذی الصالحین (کشاف) ۔ ایک کا قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت سارے کافروں کے حق میں ہے کہ عبادت سے روکنے والے تو سارے ہی کافر ہیں اور مساجد سے مراد کل روئے زمین ہے۔ چناچہ کافروں کو دار الاسلام میں داخلہ کا کوئی حق نہیں بجز اس کے کہ مسلمانوں کی ہی شرائط پر ہو۔ اور یہ قول امام تریدی کی طرف منسوب ہے (احمدی) اور اگر مراد مسجد حرام لی جائے تو قانونی اور تشریعی حیثیت سے قطع نظر۔ واقعاتی رنگ میں بات بالکل صحیح نظر آئے گی۔ چناچہ مسجد حرام اس وقت سے آج تک بحمداللہ مسلمانوں کے قبضہ میں ہی چلی آرہی ہے۔
Top