Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 26
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖۤ اِنَّنِیْ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَۙ
وَاِذْ قَالَ : اور جب کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم نے لِاَبِيْهِ : اپنے والد سے وَقَوْمِهٖٓ : اور اپنی قوم سے اِنَّنِيْ : بیشک میں بَرَآءٌ : بےزار ہوں مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ : اس سے جو تم عبادت کرتے ہو
اور جب کہا ابراہیم نے اپنے باپ کو اور اس کی قوم کو میں الگ ہوں ان چیزوں سے جن کو تم پوجتے ہو
خلاصہ تفسیر
اور (وہ وقت قابل ذکر ہے) جبکہ ابراہیم ؑ نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ میں ان چیزوں (کی عبادت) سے بیزار (اور بےتعلق) ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو مگر ہاں (اس خدا سے تعلق رکھتا ہوں) جس نے مجھ کو پیدا کیا، پھر وہی مجھ کو (میرے دین و دنیا کی مصلحتوں تک) رہنمائی کرتا ہے (مطلب یہ کہ ان لوگوں کو ابراہیم ؑ کا حال یاد کرنا چاہئے کہ وہ خود بھی توحید کے معتقد تھے) اور (وصیت کے ذریعہ) وہ اس (عقیدہ) کو اپنی اولاد میں (بھی) ایک قائم رہنے والی بات کر گئے (یعنی اپنی اولاد کو بھی وصیت کی جس کا اثر کچھ کچھ حضور ﷺ کی بعثت تک بھی برابر رہا، یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت میں بھی عرب میں بعض لوگ شرک سے نفرت کرتے تھے اور یہ وصیت انہوں نے اس لئے کی تھی) تاکہ (ہر زمانے میں مشرک) لوگ (موحدین سے توحید کا عقیدہ سن سن کر شرک سے) باز آتے رہیں (مگر یہ لوگ پھر بھی باز نہیں آتے اور اس طرف توجہ نہیں کرتے) بلکہ میں نے (جو) ان کو اور ان کے باپ دادوں کو (دنیا کا) خوب سامان دیا ہے (اس میں منہمک اور غافل ہو رہے ہیں) یہاں تک کہ (اسی انہماک اور خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے) ان کے پاس سچا قرآن (جو معجز ہونے کی وجہ سے اپنی سچائی کی آپ ہی دلیل ہے) اور صاف صاف بتانے والا رسول (اللہ کی طرف سے) آیا اور جب ان کے پاس یہ سچا قرآن پہنچا (اور اس کا اعجاز ظاہر ہوا) تو کہنے لگے کہ یہ جادو ہے اور ہم اس کو نہیں مانتے۔
معارف و مسائل
(آیت) وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ الخ۔ گزشتہ آیات کے آخر میں باری تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا تھا کہ مشرکین عرب کے پاس اپنے شرک پر سوائے اپنے باپ دادوں کی رسوم کے کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ ظاہر ہے کہ واضح عقلی اور نقلی دلائل کی موجودگی میں محض باپ دادوں کی تقلید پر اصرار کرنا حق و انصاف سے کس قدر بعید ہے۔ اب ان آیات میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اگر اپنے آباء و اجداد ہی کے راستے پر چلنا چاہتے ہو تو حضرت ابراہیم ؑ کے راستے پر کیوں نہیں چلتے جو تمہارے اشرف ترین جد اعلیٰ ہیں اور جن کے ساتھ نسبی وابستگی کو تم خود اپنے لئے سرمایہ فخر سمجھتے ہو۔ وہ نہ صرف توحید کے قائل تھے اور اپنی اولاد کو بھی اس کی وصیت کر گئے بلکہ خود ان کا طرز عمل یہ بتاتا ہے کہ کھلے ہوئے عقلی اور نقلی دلائل کی موجودگی میں محض اپنے باپ دادوں کی تقلید کرنا جائز نہیں، جب وہ دنیا میں مبعوث ہوئے تو ان کی ساری قوم اپنے آباؤ اجداد کی اتباع میں شرک میں مبتلا تھی، لیکن انہوں نے اپنے آباء و اجداد کی اندھی تقلید کے بجائے دلائل واضحہ کا اتباع کرتے ہوئے اپنی قوم سے بیزاری کا اظہار کیا اور فرمایا اِنَّنِيْ بَرَاۗءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ (جن چیزوں کی عبادت تم کرتے ہو میں ان سے بری ہوں)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی بد عمل یا بد عقیدہ گروہ یا جماعت کے درمیان رہتا ہے، اور خاموش رہنے کی صورت میں یہ اندیشہ ہے کہ اس کو بھی اس گروہ کا ہم خیال سمجھا جائے گا تو محض اپنے عقیدے اور عمل کا درست کرلینا ہی کافی نہیں، بلکہ اس گروہ کے عقائد و اعمال سے اپنی برات کا اظہار بھی ضروری ہے۔ چناچہ یہاں حضرت ابراہیم ؑ نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ اپنے عقائد و اعمال کو مشرکین سے عملاً ممتاز کرلیا بلکہ زبان سے بھی برات کا برملا اظہار فرمایا۔
Top