Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 44
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
اَتَأْمُرُوْنَ : کیا تم حکم دیتے ہو النَّاسَ : لوگ بِاالْبِرِّ : نیکی کا وَتَنْسَوْنَ : اور بھول جاتے ہو اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ کو وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَتْلُوْنَ الْكِتَابَ : پڑھتے ہو کتاب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پھر تم نہیں سمجھتے
(یہ) کیا (عقل کی بات ہے کہ) تم لوگوں کو نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنے تئیں فراموش کیے دیتے ہو حالانکہ تم کتاب (خدا) بھی پڑھتے ہو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
(2:44) اتامرون ۔ الف استفہامیہ ہے اور جملہ تامرون الناس ۔۔ الخ پر داخل ہے یہ استفہام انکاری ہے یعنی ایسا مت کرو۔ تامرون مضارع جمع مذکر حاضر امر مصدر (باب نصر) تم حکم دیتے ہو۔ اتامرون الناس بالبر۔ کیا تم لوگوں کو نیکی کرنے کا حکم دیتے ہو (اور ۔۔ الخ) البر۔ نیکی کرنا۔ بھلائی کرنا۔ نیکوکاری مصدر ہے۔ وانتم تتلون الکتب ۔ یہ جملہ حال ہے ضمیر فاعل تنسون۔ سے۔ تتلون۔ مضارع جمع مذکر حاضر تلاوۃ (باب نصر) مصدر۔ تم پڑھتے ہو، تم تلاوت کرتے ہو۔ الکتب سے مراد یہاں توراۃ ہے۔ افلا تعقلون۔ الف استفہامیہ ہے اور فاء عاطفہ ہے۔ اس صورت کی مندرجہ ذیل توجیہات ہیں۔ (1) جیسا کہ اجزائے جملہ معطوفہ کا عام قاعدہ ہے کہ حرف استفہام حرف عطف کے بعد آتا ہے مثلاً فاین تذھبون فکیف تتقون وغیرہ۔ لیکن ہمزہ استفہامیہ حرف عطف پر اس امر پر آگاہ کرنے کے لئے پہلے لایا جاتا ہے کہ صدر کلام میں آنے کے واسطے اصلی حرف یہی ہے۔ اس کی چند اور مثالیں قرآن مجید میں یہ ہیں۔ اوکلما عھدوا عھدا (2:100) افا من اہل القری (7:97) اور اثم اذا ماوقع (10:51) (2) ہمزہ استفہامیہ کے بعد عبارت مقدر ہے جو اگلے جملہ معطوف کے لئے معطوف علیہ ہے۔ یعنی تقدیر کلام یہ ہے اتتلون الکتب فلا تعقلون۔ کیا تم کتاب پڑھتے ہو ۔ پھر کیوں نہیں سمجھتے ؟
Top