Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَۚ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ : اور البتہ تم نے جان لیا الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا : جنہوں نے زیادتی کی مِنْكُمْ : تم سے فِي السَّبْتِ : ہفتہ کے دن میں فَقُلْنَا : تب ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ : ذلیل بندر
اور تم ان لوگوں کو خوب جانتے ہو جو تم میں سے ہفتے کے دن (مچھلی کا شکار کرنے) میں حد سے تجاوز کر گئے تھے تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل و خوار بندر ہوجاؤ
(2:65) ولقد۔ واؤ۔ عاطفہ ہے لام تاکید کا قد ماضی پر داخل ہوکر تحقیق کے معنی دیتا ہے۔ سو لام تاکید اور قد فعل علمتم پر داخل ہونے پر معنی ہوں گے۔ تحقیق تم خوب جانتے ہو۔ تاکید بالائے تاکید۔ اتعدوا۔ انہوں نے زیادتی کی۔ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود سے گزرگئے۔ اعتداء (افتعال) مصدر سے ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ حق سے تجاوز کرنے کو اعتداء کہتے ہیں۔ فی السبت۔ ہفتہ کے دن کے دوران سبت کے اصل معنی قطع کرنے کے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں سبت انفہ اس نے اس کی ناک کاٹ ڈالی۔ پھر اس کے معنی ہفتہ کا دن ہے۔ کیونکہ اہل یہود اس روز کاروبار چھوڑ دیتے تھے اس لئے اس روز کا دوسرے کاروباری ایام سے رشتہ کٹ گیا۔ اس طرح آیت وجعلنا نومکم سباتا (78:9) اور ہم نے تمہاری نیند کو موجب راحت بنایا ۔ اس میں سبات کے معنی حرکت و عمل سے کٹ کر آرام کرنا کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ہفتہ کو سبت اس لئے کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو قطع کیا یعنی پیدا کیا۔ یا اس لئے کہ یہود کو اس دن عبادت کے سوا اور کل کاموں سے قطع تعلق کرنے کا حکم ہوا تھا۔ قدرۃ۔ بندر۔ جمع کا صیغہ۔ قرد واحد ہے یہ منصوب بوجہ کونوا کی خبر کے ہے۔ خسئین۔ خسئا سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر ہے۔ ذلیل و خوار۔ خسئا کسی کو دھتکارنے کے لئے آیا ہے۔ مثلاً خسئات الکلب میں نے کتے کو دھتکارا۔ خسئین ۔ کنتم کی ضمیر سے حال ہے یا قردۃ کی صفت فجعلنا ھا۔ میں ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب۔ یا القریۃ کے لئے جہاں یہ واقعہ پیش آیا ۔ یا خسیان کے لئے ہے یا واقعہ کے لئے ہے یا اس قصہ کے لئے۔
Top