Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 3
لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى١ۖۗ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ۖۗ هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۚ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ
لَاهِيَةً : غفلت میں ہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاَسَرُّوا : اور چپکے چپکے بات کی النَّجْوَي : سرگوشی الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا (ظالم) هَلْ : کیا ھٰذَآ : یہ اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تم ہی جیسا اَفَتَاْتُوْنَ : کیا پس تم آؤگے السِّحْرَ : جادو وَاَنْتُمْ : اور (جبکہ) تم تُبْصِرُوْنَ : دیکھتے ہو
ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ظالم لوگ (آپس میں) چپکے چپکے باتیں کرتے ہیں کہ یہ (شخص کچھ بھی) نہیں مگر تمہارے جیسا آدمی ہے تو تم آنکھوں دیکھتے جادو (کی لپیٹ) میں کیوں آتے ہو ؟
(21:3) لاھیۃ قلوبہم۔ یہ بھی استمعوا کے فاعل سے حال ہے۔ لاھیۃ اسم فاعل واحد مؤنث ۔ لاھی واحد مذکر۔ لاھیات جمع۔ غافل ۔ لہو میں پڑے ہوئے اللھو۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے ہٹائے اور باز رکھے۔ یہ لھوت کذا سے اسم ہے جس کے معنی کسی مقصد سے ہٹ کر بےسود کام میں لگ جانے کے ہیں۔ لاھیۃ قلوبہم (درآں حالیکہ) ان کے دل (یوم جزا سے ہٹ کر) غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ما یاتیہم سے جو فقرہ شروع ہوا تھا وہ قلوبہم پر آکر ختم ہوا۔ واسروا سے نیا فقرہ شروع ہوتا ہے اسروا۔ وہ پوشیدہ رکھتے ہیں (ماضی بمعنی حال) ۔ النجوی۔ اسم معرف باللام۔ سرگوشی۔ یا یہ مصدر ہے بمعنی سرگوشی کرنا۔ نجوی میں خود ہی اخفاء کا پہلو شامل ہے۔ اسروا کے لفظ نے مزید تاکید وزور پیدا کردیا۔ واسروا النجوی الذین ظلموا کے متعلق صاحب ضیاء القرآن لکھتے ہیں :۔ یہاں یاک نحوی پیچیدگی ہے۔ واسروا النجوی الذین ظلموا کے فقرہ میں اسروا فعل ہے نجوی مفعول۔ اور الذین فاعل۔ نحو کا قاعدہ ہے کہ جب فاعل اسم ظاہر ہو تو فعل واحد ہوتا ہے۔ اس قاعدہ کے مطابق اسر النجوی ہونا چاہیے تھے۔ مگر یہاں فاعل ظاہر ہونے کے باوجود اسروا جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا گیا۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اسروا میں وائو ضمیر جمع نہیں ہے بلکہ علامت جمع ہے تاکہ اسروا کا لفظ سنتے ہی سننے والے کو پتہ چل جائے کہ اس کا ایک فاعل نہیں بلکہ متعدد ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ وائو ضمیر جمع فاعل ہے اور الذین فاعل نہیں بلکہ وائو کا بدل ہے اور وائو مبدل منہ ہے جیسے ثم عموا وصموا کثیر منہم (5:71) میں گذر چکا ہے کہ کثیر فاعل نہیں بلکہ وائو علامت جمع اور ضمیر جمع فاعل ہے اور کثیر اس کا بدل ہے۔ تیسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ عرب کی ایک لغت میں ایسے موقعہ پر بھی فعل کا جمع کا صیغہ استعمال ہوتا رہتا ہے ۔ جیسے اکلونی البراغیث (مجھے پسوئوں نے (کاٹ) کھایا۔ ملاحظہ ہو سورة مائدہ آیت نمبر 71 ۔ ضیاء القرآن جلد اول۔ فقرہ کا ترجمہ ہوگا۔ (یہ) ظلم کار لوگ (آپ کے خلاف) سرگوشیوں کو چھپاتے رہتے ہیں۔ ھل۔ نفی کے لئے آیا ہے۔ ای ما ھذا الا بشر مثلکم۔ افتاتون۔ الف استفہامیہ۔ تأتون مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم آتے ہو۔ تم آئو گے۔ اتیان مصدر۔ باء کے ساتھ جب اس کا تعدیہ ہو تو معنی لانے کے ہوتے ہیں۔ افتاتون السحر۔ کیا تم (پھر بھی) جادو (کی باتیں سننے) آئو گے۔ وانتم تبصرون۔ حالانکہ تم دیکھ رہے ہو۔ یہ جملہ حال ہے تاتون کی ضمیر فاعل ہے ۔ اور یہ سارا جملہ ھل ھذا الا بشر مثلکم افتاتون السحر وانتم تبصرون۔ محل نصب میں ہے اور النجوی سے بدل ہے۔ یعنی ان کی سرگوشیاں یہ کلام ہے۔
Top