Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 42
وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّ عَادٌ وَّ ثَمُوْدُۙ
وَاِنْ : اور اگر يُّكَذِّبُوْكَ : تمہیں جھٹلائیں فَقَدْ كَذَّبَتْ : تو جھٹلایا قَبْلَهُمْ : ان سے قبل قَوْمُ نُوْحٍ : نوح کی قوم وَّعَادٌ : اور عاد وَّثَمُوْدُ : اور ثمود
اور اگر یہ لوگ تم کو جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم بھی عاد اور ثمود کی قوم بھی (اپنے پیغمبروں کو) جھٹلا چکے ہیں
(22:42 تا 44) ان یکذبون۔ میں ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ نبی کریم ﷺ کی طرف راجع ہے۔ اے رسول اللہ ﷺ ۔ اگر کفار آپ کو جھٹلاتے ہیں (تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یہ جواب شرط محذوف ہے) فائدہ :۔ ان آیات کی مندرجہ ذیل توضیحات قابل ذکر ہیں ! (1) ان یکذبوک۔ جملہ شرطیہ ہے لیکن جواب شرط محذوف ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔ ّ (2) عاد اور ثمود کے ساتھ لفظ قوم نہیں آیا کیونکہ یہ قومیں ان ناموں کے ساتھ مشہور ہیں اس لئے قوم ہود یا قوم صالح نہیں کیا۔ اسی طرح اصحاب مدین کے ساتھ ان کے پیغمبر حضرت شعیب (علیہ السلام) کا ذکر نہیں ہوا۔ (3) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر میں کذب فعل مجہول لا کر بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی جھٹلایا گیا تھا۔ یہاں قوم اس واسطے مذکور نہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی قوم بنی اسرائیل نے نہیں جھٹلایا تھا بلکہ فرعون اور قبطیوں نے تکذیب کی تھی۔ (4) کذبت کو صیغہ تانیث سے اس لئے لایا گیا ہے کہ قوم (اس کا فاعل) اسم جمع ہے جس کے لئے تذکیر و تانیث دونوں جائز ہیں۔ املیت۔ ماضی واحد متکلم املاء (افعال) مصدر۔ میں نے ڈھیل دی۔ میں نے مہلت دی۔ اخذتہم۔ اخذت ماضی واحد متکلم ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ میں نے ان کو پکڑ لیا۔ ای عاقبتہم میں نے ان کو سزا دی۔ (ان کے کفر اور تکذیب کی) ۔ نکیر۔ اصل میں نکیری تھا۔ میرا انکار ۔ نکیر۔ باب افعال سے بروزن فعیل مصدر غیر قیاسی ہے نکیر۔ میرا انکار کردینا۔ میرا ان کو نہ پہچاننا۔ میرا ان کو رد کردینا۔ ظاہر ہے کہ خداوند تعالیٰ کا انکار کردینا محض زبانی انکار نہیں ہے بلکہ ان کی حالت کو دگرگوں کردینا۔ مخالف اور برعکس حالت سے بدل دینا۔ مراد ہے۔ مثلاً زندگی کو موت سے ۔ آبادی کو ویرانی سے ۔ تنعم وتعیش کو دشوار وہیبت ناک مصیبت میں بدل دینا۔ یہاں عذاب کے معنوں میں بھی لیا جاسکتا ہے۔ فکیف کان نکیر۔ پس کس قدر ہیبت ناک تھا میرا عذاب۔
Top