Maarif-ul-Quran - Al-Fath : 18
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْ١ؕ وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہی وہ جس نے اَنْزَلَ : اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھائے اِيْمَانًا : ایمان مَّعَ : ساتھ اِيْمَانِهِمْ ۭ : ان کے ایمان کے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے جُنُوْدُ : لشکر (جمع) السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلِيْمًا : جاننے و الا حَكِيْمًا : حکمت والا
وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ اور ایمان بڑھے اور آسمانوں اور زمین کے لشکر (سب) خدا ہی کے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
بشارات اہل حدیبیہ بعطاء نعمأدنیویہ واخرویہ : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” ھو الذی انزل السکینۃ فی قلوب المومنین ....... الی ....... عزیزا حکیما “۔ (ربط) گذشتہ آیات فتح مبین کی بشارت کے ساتھ ان بشارتوں اور کرامتوں پر مشتمل تھیں جو آنحضرت ﷺ کی ذات مبارکہ کے ساتھ مخصوص تھیں اب ان آیات میں وہ کرامات اور بشارتیں ذکر فرمائی جارہی ہیں جو آپ ﷺ کے ہمرکاب رفقاء اور حضرات صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین “۔ کے متعلق ہیں اور اس لحاظ سے کہ بضدھاتتبین الاشیاء “۔ نور کی نورانیت ظلمت و تاریکی کے ہی مقابلہ میں پہچانی جاتی ہے تو اولا اہل حدیبیہ کے فضائل بیان فرماتے گئے اور پھر بطور تکمیل مضمون انکے مقابل منافقین ومتخلفین کی ذلت اور کمینہ پن بیان کیا جارہا ہے ، صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ جب سفر حدیبیہ سے واپس ہوئے تو آپ (علیہ السلام) پر یہ آیات نازل ہوئیں آپ ﷺ نے ان آیات کے نزول پر فرمایا یہ نصیحتیں اور بشارتیں جو اللہ نے نازل فرمائیں مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ محبوب ہیں حضرات صحابہ یہ سن کر فرمانے لگے یا رسول اللہ یہ انعامات وکرامتیں جو اللہ نے نازل فرمائیں تو وہ آپ ﷺ کے واسطے ہیں اور وہ آپ ﷺ کے ساتھ تو کرے گا لیکن ہماری عرض یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو اللہ ہمارے ساتھ کرے گا تو اس پر یہ آیات نازل ہوئیں (آیت ) ” ھوالذی انزل السکینۃ “۔ الایات۔ ارشاد فرمایا وہی ہے پروردگار جس نے سکینت وطمانینت کو اتارا اہل ایمان کے دلوں میں تاکہ انکے ایمان میں اور اضافہ ہوجائے استقامت ویقین کامل کی صورت میں انکے اصل ایمان کے ساتھ کے اس سکینت اور طمانینت قلب سے رسول اللہ ﷺ کی بات پر دل مطمین ہوگئے گو کہ بعض باتیں بظاہر خلاف طبع تھیں اور ہوسکتا تھا کہ جس طرح کافر ضد پر ڈٹے ہوئے تھے یہ بھی ایسی ہی ضد کی صورت اختیار کرلیتے مگر اس اطمینان قلب کی وجہ سے انکے مراتب ایمان وعرفان میں ترقی ہوئی۔ پہلے تو جہاد کی بیعت سے یہ ثابت کردیا تھا کہ ہم اللہ کی راہ میں اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار ہیں بہرکیف یہ ایمان کا ایک عجیب رنگ تھا اس کے بعد جب پیغمبر ﷺ نے مسلمانوں کے ابھرتے ہوئے مجاہدانہ جذبات کے خلاف اللہ کے حکم سے صلح منظور کرلی تو یہ تو ان کے ایمان کا دوسرا رنگ تھا جو پہلے رنگ پر اضافہ ہوا کہ اپنے جذبات ووعواطف کو مغلوب کرتے ہوئے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے فیصلہ کے سامنے سرجھکا دیا ان کو اس ایمان وانقیاد کے ساتھ اس پر یقین بھی حاصل ہوگیا کہ اللہ ہی کے لئے ہیں لشکر آسمانوں اور زمین کے اور اللہ بڑا ہی خبردار حکمت والا ہے اس کے علم سے دشمنان اسلام کی کوئی سازش اور مخالفت پوشیدہ نہیں اور وہ اپنی حکمت سے جب چاہے گا، اپنے لشکروں کو جہاد کے واسطے حکم دیدیگا اور جب اس کے لشکر میدان جہاد میں آئیں گے جیسے کہ بدر وحنین میں تو پھر کسی کو مقابلہ کی تاب نہ ہوگی اور یہ سب کچھ اس وجہ سے کہ پہنچا دے ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں، 1 حاشیہ (احادیث سے معلوم ہوا کہ اس سفر میں حضرت ام سلمہ ؓ بھی ساتھ تھیں تو قرآن کریم نے ان کے اکرام کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاص طور پر مومن ات کا لفظ بھی بول دیا ورنہ تو بالعموم فضائل و احکام میں ایک ہی عنوان اور صیغہ مذکر دونوں کو شامل ہوا کرتا ہے۔ 12) کو ایسے باغوں (جنتوں) میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں جو ہمیشہ ان میں رہنے والے ہوں گے اور اس انعام و اعزاز کے علاوہ یہ بھی ایک خصوصی انعام ہوگا کہ مٹا دے گا ان سے انکی برائیاں اور یہ ہے اللہ کے یہاں بڑی ہی کامیابی جو مخلصین ومطیعین اور مومنین صادقین کے حصہ میں آتی ہے اور اسکے برعکس منکرین ومنافقین کے حق میں یہ مصلحت ہے کہ عذاب دے منافق مردوں (دغا باز مردوں) اور منافق عورتوں (دغا باز عورتوں ) ۔ 1 حاشیہ (حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن قدس اللہ سرۂ نے منافقین ومنافقات کے ترجمہ میں یہ لفظ استعمال کیا جو نہایت ہی بلیغ ولذیذ ہے اس وجہ سے بین القوسین ذکر کردیا گیا۔ 12) کو اور شرک کرنے والے مردوں اور شرک کرنے والی عورتوں کو جو گمان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں براگمان بیشک انھی پر لوٹے گا چکر انکی برائی کا اور خدا کا غضب ہے ان پر اور لعنت کی خدا نے ان پر اور تیار کی انکے واسطے جہنم اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے جہاں کی مصیبتوں اور تکالیف کی کوئی حدوانتہا نہیں ہے اور یہ تو ظاہر ہی ہے کہ اللہ کے واسطے ہیں تمام لشکر آسمانوں اور زمین کے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔ 2 حاشیہ (ان آیات میں دو جگہ (آیت ) ” وللہ جنود السموت والارض “۔ فرمایا گیا پہلی جگہ ان الفاظ سے یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ اللہ رب العزت ہی مخلوقات کے تمام کاموں کی تدبیر کرنے والا ہے اور وہ اپنی حکمت کے تقاضے سے جس طرح چاہتا ہے ہر امر طے فرماتا ہے اس بنا پر وہاں اللہ رب العزت نے اپنی صفت (آیت ) ” علیماحکیما “۔ فرمائی لیکن یہاں مقصود مجرمین ونافرمانوں کو تہدید ودھم کی ہے اس وجہ سے اس پر موقعہ پر وصف (آیت ) ” عزیزا حکیما “۔ ارشاد فرمایا 12 (روح المعانی ) اس وجہ سے منافقین ومنافقات اور مشرکین ومشرکات عذاب خداوندی سے نہیں بچ سکتے جن کے خیالات نہایت گندے تھے اور ان کے دلوں میں بیہودہ آرزوئیں تھیں وہ سوچتے تھے مسلمانوں سے اگر لڑائی ہوئی تو ضرور ناکام ہوں گے کیونکہ نہ ان کے پاس فوج ہے نہ سازو سامان، وطن سے دور ہوں گے مدد بھی نہ پہنچ سکے گی اس کے برعکس قریش مکہ طاقت ور ہیں سازوسامان انکے پاس ہے وہ ضرور کامیاب ہوں گے تو ہم کیوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالیں کبھی یہ سوچتے کہ مسلمانوں کا یہ کہنا کہ ہم عمرے کے واسطے جارہے ہیں یہ محض ایک دھوکہ ہے دراصل ان کا مقصد لڑائی ہے اور قریش مکہ پر حملہ کرنا ہے غرض اس طرح کے ادہام وخیالات میں تھے کہ اللہ رب العزت نے ارادہ کیا کہ ذلیل کیا جائے اور عذاب دنیوی واخروی میں مبتلا ہوں چناچہ جس قدر انہوں نے پیش بندیاں کیں، احتیاط برتا ان کی سب تدبیریں ضائع گئیں اور مصیبتوں کے چکر نے انکو اپنے گھیرے میں لے لیا یہ تو دنیا کا عذاب ہوا مزید عذاب اخروی یہ کہ غضب خداوندی کے مستحق بنے خدا کی لعنت ان پر ہوئی اور عذاب جہنم جو ہمیشہ کے لئے ہے مقرر کردیا گیا اللہ رب العزت بڑے ہی غلبہ اور طاقت والا ہے اس کے فیصلہ کو کوئی روک نہیں سکتا ساتھ ہی وہ حکمت والابھی ہے بمقتضائے حکمت جب بھی مناسب جانتا ہے مجرمین کو سزا دیتا ہے۔ حضرات صحابہ ؓ کے قلوب میں نزول سکینت کی بشارت ان کے مومن کامل اور صاحب تقوی ہونے کا اعلان ہے : آیت مبارکہ (آیت ) ” ھو الذی انزل السکینۃ فی قلوب ال مومنین “۔ کا مصداق بلاشبہ حضرات صحابہ اور بالخصوص وہی حضرات ہیں جو حدیبیہ میں آنحضرت ﷺ کے ہمراہ تھے جب قرآن کریم نے واضح طور پر اس امر کی شہادت دے دی کہ اللہ رب العزت نے ان کے دلوں میں سکینت وطمانینت نازل فرمادی تو ظاہر ہے کہ اس کہ اس کے بعد ان افراد اور مقدس ہستیوں کے بارے میں کسی طرح کی ایمان ویقین کی کمزوری کا تصور کرنا قرآنی شہادت العیاذ باللہ ٹھکرانا ہے قرآن کریم نے شہادت دیدی کہ وہ تقوی، ایمان، عفت و پاکدامنی کے پیکر ہیں اور ایمان پر استقامت کا ان کو ایسا مقام حاصل ہے کہ ان کے قدم صراط مستقیم سے کسی بھی مرحلہ پر کسی بھی لمحہ نہیں ڈگمگا سکتے اور حتی کہ تقوی اور پرہیزگاری کا وصف انکے لئے لازم ذات بنادیا جیسا کہ ارشاد ہے (آیت ) ” والزمھم کلمۃ التقوی “۔ اور ساتھ یہ بھی فرمادیا گیا کہ اللہ رب العزت کے علم ازلی کے لحاظ سے وہی اس کے تمام عالم میں سب سے زیادہ مستحق اور لائق تھے اور جب تقوی کمال ایمان اور استقامت وسکینت کا وصف ان حضرات کا لازم ذات وصف ہوگیا تو بلاشبہ ان کا مقام و مرتبہ خداوند عالم کے نزدیک اولیاء اور اس کے محبوب ہونے کا ہوگیا اب اس میں شبہ وتردد قرآن میں شبہ کرنا ہے اور اللہ کی شہادت میں شبہ وتردد بدترین جرم ہے۔
Top