Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 59
قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰى١ؕ آٰللّٰهُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِكُوْنَؕ   ۧ
قُلِ : فرما دیں الْحَمْدُ لِلّٰهِ : تمام تعریفیں اللہ کے لیے وَسَلٰمٌ : اور سلام عَلٰي عِبَادِهِ : اس کے بندوں پر الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اصْطَفٰى : چن لیا آٰللّٰهُ : کیا اللہ خَيْرٌ : بہتر اَمَّا : یا جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک ٹھہراتے ہیں
کہہ دو کہ سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے اور اسکے بندوں پر سلام ہے جن کو اس نے منتخب فرمایا بھلا خدا بہتر ہے یا وہ جن کو یہ اسکا شریک ٹھہراتے ہیں
(27:59) اصطفی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ اس نے چن لیا۔ اس نے پسند کرلیا۔ اصطفی یصطفی اصطفاء (افتعال) مصدر۔ صفو مادہ۔ مصطفیٰ اسم مفعول ۔ برگزیدہ ۔ چنا ہوا۔ پسند کیا ہوا۔ الصفاء کے معنی کسی چیز کا ہر قسم کی آمیزش سے پاک اور صاف ہونا۔ اور الاصطفاء کے معنی صاف اور خالص چیز کا لے لینا کے ہیں جیسے الاختیار کے معنی بہتر (خیر) چیز لے لینا اور الاجتباء کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینے کے ہیں۔ آللہ۔ اصل میں اللہ تھا۔ ہمزہ استفہام کو الف سے بدل کر مد کو لایا گیا ہے۔ خیر۔ اسم تفضیل کا صیغہ ہے اور اسم تفضیل سے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ صفت دونوں میں پائی جاتی ہے لیکن ایک میں زیادہ دوسرے میں کم۔ جیسے زید اعلم من عمرو کا معنی ہے کہ زید عمرو سے نہ زیادہ عالم ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ عمرو بالکل جاہل ہے لیکن یہاں تو بتوں میں واہمہ تک نہیں۔ اس لئے علماء نے تصریح کی ہے کہ یہ یہاں اسم تفضیل کے معنی میں استعمال نہیں بلکہ محض خیر و خوبی کے اظہار کے لئے ہے۔ یا اس لئے کہ کفار اپنے زعم باطل میں کچھ نہ کچھ خیر و بھلائی تو یقین کرتے تھے اسی لئے تو ان کی پوجا کرتے تھے ۔ (ضیاء القرآن) اما۔ مرکب ہے۔ ام اور ما موصولہ ہے۔ تقدیر کلام ہے : اعبادۃ اللہ تعالیٰ خیر ام عبادۃ ما یشرکون ۔ کیا اللہ تعالیٰ کی عبادت بہتر ہے یا (ان بتوں کی) جن کو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔
Top