Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 72
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ
اِنَّا : بیشک ہم عَرَضْنَا : ہم نے پیش کیا الْاَمَانَةَ : امانت عَلَي : پر السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالْجِبَالِ : اور پہاڑ فَاَبَيْنَ : تو انہوں نے انکار کیا اَنْ يَّحْمِلْنَهَا : کہ وہ اسے اٹھائیں وَاَشْفَقْنَ : اور وہ ڈر گئے مِنْهَا : اس سے وَحَمَلَهَا : اور اس اٹھا لیا الْاِنْسَانُ ۭ : انسان نے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا ظَلُوْمًا : ظالم جَهُوْلًا : بڑا نادان
ہم نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمینوں پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھا لیا بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا
(33:72) عرضنا۔ ماضی جمع متکلم۔ ہم نے پیش کیا۔ الامانۃ۔ الا من کے اصل معنی نفس کے مطمئن ہونے کے ہیں۔ امن۔ امانۃ امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے یہاں الامانۃ سے مراد بار امانۃ ہے جیسا کہ عرب کہتے ہیں حمل الامانۃ یعنی اس نے امانت واپس کرنے سے انکار کردیا اور اس کا بوجھ اٹھا لیا۔ اشفقن منھا۔ اشفقن ماضی صیغہ جمع مؤنث غائب ہے (سموت والارض والجبال) کے لئے آیا ہے۔ اشفاق (افعال) مصدر۔ الاشفاق اصل میں کسی کی خیر خواہی کے ساتھ اس پر تکلیف آنے سے ڈرنا۔ کے ہیں۔ جب یہ فعل حرف من کے واسطہ سے متعدی ہو تو اس میں خوف کا پہلو زیادہ ہوتا ہے مثلاً مشفقون منھا (42:18) وہ اس سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اشفقن منھا۔ وہ (آسمان اور زمین اور پہاڑ اس (کا بوجھ اٹھانے) سے ڈر گئے۔ ظلوما۔ ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا۔ (ای وضع الشیء فی غیر محلہ) ظلوم فعول کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے بڑا ظالم ۔ نہایت ستمگار، بڑا بےانصاف ، بڑا بےباک، بڑا بےترس۔ ظلم کی تین قسمیں ہیں۔ (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے مثلاً کفرو شرک وغیرہ جیسا کہ فرمایا۔ ان الشرک لظلم عظیم۔ (31:13) بیشک شرک بہت بھاری ظلم ہے۔ (2) وہ ظلم جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے مثلاً انما السبیل علی الذین یظلمون الناس (42:42) الزام تو ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (3) وہ ظلم جو انسان خود اپنے آپ پر کرتا ہے مثلاً فرمایا۔ رب انی ظلمت نفسی میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ جھولا۔ الجھل جہالت ونادانی۔ اس کی تین قسمیں ہیں :۔ (1) انسان کے ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں۔ (2) کسی چیز کے خلاف واضع۔ (3) کسی کام کو جس طرح سرانجام دینا چاہیے اس کے خلاف سر انجام دینا۔ عام اس سے کہ اس کے متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط۔ جاہل کا لفظ عموما بطورمذمت بولا جاتا ہے مگر کبھی بطور مذمت نہیں آتا۔ مثلاً یحسبہم الجاھل اغنیاء من التعفف (2:273) کہ ان کے نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو غنی خیال کرتا ہے۔ جھول۔ بروزن فعول مبالغہ کا صیغہ ہے۔ بڑا جاہل ۔ بڑا نادان۔ الانسان۔ سے مراد جنس انسانی ہے۔ لفظی طور پر آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ ہم نے یہ امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا۔ سو انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بیشک یہ (انسان) ظلوم وجہول ہے۔ لیکن اس کے سمجھنے کے لئے صاحب ضیاء القرآن کی وضاحت بہت مفید ہوگی۔ فرماتے ہیں کہ :۔ اہل لغت کی بیان کردہ تفسیر کے بعد اب علمائے کرام کا نقطہ نظر ملاحظہ فرمائیے ! ان کے نزدیک امانت سے مراد تکلیفات شرعیہ ہیں جن میں عبادات ، اخلاقیات اور ہر قسم کے قوانین داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کو فرمایا کہ ہم تمہیں اختیار و ارادہ کی آزادی دیتے ہیں کیا تم اس اختیار و آزادی کے ساتھ اس امانت کا بار اٹھانے کے لئے تیار ہو۔ انہوں نے اعتراف عجز کرتے ہوئے معذرت کردی اور اپنی بےبسی کا اقرار کیا یہ بوجھ گراں ہے ہم اس کے اٹھانے سے قاصر ہیں۔ ہمیں اطاعت کے ثواب کی امید سے عصیان و نافرمانی کے عذاب کا اندیشہ زیادہ ہے۔ ہم تیرے مسخر اور پابند حکم رہ کر تیرے ہر ارشاد کی تعمیل کریں گے اختیار و ارادہ کی آزادی میں جو خطرات پنہاں ہیں ان کو برداشت کرنے کی طاقت ہم اپنے اندر نہیں پاتے۔ اب یہی چیز جب انسان کے سامنے پیش کی گئی تو اس نے اپنی ناتوانیوں اور کمزوریوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس امانت کو اٹھانے کی حامی بھر لی۔ اور اس بار گراں کو اٹھا کر اپنے آپ کو آزمائش وابتلا میں ڈال دیا۔ اور اس نے کسی عقل مندی کا ثبوت نہیں دیا۔ اس سے انسان کی مذمت مقصود نہیں بلکہ بیان واقع کے طورپر انہ کان ظلوما جھولا فرمایا۔ حضرت جنید بغدادی قدس سرہ نے بڑی پیاری بات فرمائی ہے :۔ ” شیخ جنید فرمود کہ نظر آدم بر عرض حق بود نہ بر امانت۔ لذت عرض ثقل امانت را بروفراموش گردانید لا جرم لطف ربانی بزبان عنایت فرمود کہ برداشتن از تو ونگاہ داشتن از من ! “ یعنی اللہ تعالیٰ نے جب یہ امانت حضرت آدم (علیہ السلام) پر پیش فرمائی تو آپ کی نظر اس وقت امانت اور ثقل پر نہ تھی بلکہ امانت پیش کرنے والے پر تھی اور اس کے پیش فرمانے میں جو لذت و سرور تھا اس نے امانت کی گرانی کو نظروں سے اوجھل کردیا “۔ یعنی حضرت جنید (رح) فرماتے ہیں یقینا لطف ربانی نے آدم کی اس نیاز مندی اور ہمت سے خوش ہو کر فرمایا کہ اے آدم ! اٹھانا تیرا کام ہے اور اٹھانے کی توفیق دینا اور تیری حفاظت کرنا میرا کام ہے ! اہل لغت اور صوفیائے کرام کی تشریح و توضیح اسی تفسیر ضیاء القرآن میں ملاحظہ فرمائیں۔
Top