Anwar-ul-Bayan - Az-Zumar : 61
وَ یُنَجِّی اللّٰهُ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ١٘ لَا یَمَسُّهُمُ السُّوْٓءُ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
وَيُنَجِّي : اور نجات دے گا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا : وہ جنہوں نے پرہیزگاری کی بِمَفَازَتِهِمْ ۡ : ان کی کامیابی کے ساتھ لَا يَمَسُّهُمُ : نہ چھوئے گی انہیں السُّوْٓءُ : برائی وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
اور جو پرہیزگار ہیں انکی (سعادت اور) کامیابی کے سبب خدا انکو نجات دے گا نہ تو ان کو کوئی سختی پہنچے گی اور نہ وہ غمناک ہوں گے
(39:61) ینجی۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ تنجیۃ (تفعیل) مصدر نجو مادہ وہ بچا لے گا۔ وہ نجات دیگا۔ اتقوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ وہ ڈرے۔ انہوں نے پرہیزگاری اختیار کی۔ اتقاء افتعال مصدر وقی مادہ۔ وقیت الشی (باب ضرب) وقایہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں۔ جیسے ووقہم عذاب الجحیم (44:56) اور (خدا) ان کو دوزخ کے عذاب سے بچالیگا۔ اسی سے تقوی ہے نفس کو ہراس چیز سے بچانا جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ کبھی کبھی تقوی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلا فمن اتقی واصلح فلا خوف علیہم ولاہم یحزنون (7:35) جو شخص (ان پر ایمان لاکر) خدا سے ڈرتا رہیگا۔ اور اپنی حالت درست رکھیگا تو اسیے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔ پھر تقوی کے مختلف مدارج ہیں اس لئے ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے۔ بمفازتھم۔ ب سببیہ ہے مفازتھم مضاف مضاف الیہ ان کی کامیابی ان کی فلاح۔ جملہ کا مطلب یہ ہے اور جو پرہیزگار ہیں ان کی کامیابی کے سبب خدا ان کو نجات دیگا۔ مفازۃ : فازیفوز (باب نصر) سے مصدر ہے اور فوز ومفاز بھی مصدر ہے۔ لایمسھم۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب ۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ ان کو نہیں چھوئے فا۔ ان کو نہیں پہنچے گا۔ مس یمس (باب سمع) ۔ السوئ۔ تکلیف ، دکھ۔ آفت۔ سوء سے اسم ہے۔
Top