Mafhoom-ul-Quran - Ar-Ra'd : 15
وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ ظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ۩  ۞
وَلِلّٰهِ : اور اللہ ہی کو يَسْجُدُ : سجدہ کرتا ہے مَنْ : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین طَوْعًا : خوشی سے وَّكَرْهًا : یا ناخوشی سے وَّظِلٰلُهُمْ : اور ان کے سائے بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام
اور جتنی مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے۔ خوشی سے یا زبردستی سے اللہ کے آگے سجدہ کرتی ہے اور ان کے سائے بھی صبح وشام سجدے کرتے ہیں۔
مخلوقات کا اللہ کو سجدہ کرنا، نفع و نقصان کا مالک کون تشریح : ان آیات میں زندگی کے بارے میں بہت بڑا راز اور ایک کلیہ بتایا گیا ہے۔ جو راہنمائی زندگی کے بارے میں قرآن پاک ہمیں دیتا ہے اس کے مطابق زندگی کی پہلی شرط یہ ہے کہ اللہ کو پہچان کر اس کی فرمانبرداری میں جھک جانا اور ہر لمحہ اس کی تعریف کرنا۔ اس کا مطب یہ ہوا کہ ایٹم زندگی کی بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے جو کہ زندہ ہے۔ ہر چیز کی زندگی کا معیار مختلف ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ ہر چیز جو بھی اس جہاں میں موجود ہے وہ زندہ ہے اپنے خالق کو پہچانتی ہے اور اللہ کی دی ہوئی آزادی، فہم اور عقل کے مطابق اللہ کی عطا کی ہوئی ذمہ داریوں کو پورا کرتی ہے۔ کیونکہ وہ اللہ کی مرضی اور حکم کو خوب اچھی طرح سمجھتی ہے۔ انسان کو اللہ نے اشرالمخلوقات بنایا عقل اور آزادی دی کہ اللہ کو پہچان کر اس کی فرمانبرداری کرے۔ مگر کئی ایسے ناعاقبت اندیش لوگ ہوتے ہیں کہ نہ عقل سے کام لیتے ہیں اور نہ ہی اللہ کے سامنے جھکتے ہیں بلکہ اس کی بنائی ہوئی چیزوں کے سامنے جھکتے ہیں۔ ان کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ وہ مکمل طور پر اللہ کے اختیار میں ہیں۔ اللہ نے چاہا تو ان کو پیدا کردیا اور جب وہ چاہے گا ان کو موت آجائے گی پھر جب وہ چاہے گا دوبارہ زندہ کر دے گا۔ اس لحاظ سے وہ لوگ چاہیں یا نہ چاہیں مگر ہیں تو وہ اللہ کے اختیار میں ہی۔ اس کی مرضی کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ اور دنیا کی ہر چیز اللہ کی حمد و ثنا کرتی ہے جیسا کہ صبح و شام سائے جھکتے ہیں اور وہ اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہیں جب وہ اللہ کو سجدہ کرتے ہیں تو اے انسان ! تو غیر اللہ کے سامنے اپنی پیشانی کو کیوں جھکاتا ہے ؟ تو ثابت ہوا کہ ایک ذرے سے لے کر بلند ترین پہاڑوں تک غرض ہر چیز کیونکہ اللہ کو پہچانتی ہے اس کے حکم کے مطابق عمل کرتی ہے اس لیے وہ زندہ ہے۔ دنیا کی تمام نعمتیں اور برکتیں سب کے سامنے ہیں۔ اس لیے ہر شخص خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ پیدا کرنے والا اللہ ہے مگر کفار اپنی ضد کی وجہ سے اللہ کے سوا کی عبادت کرتے ہیں۔ رب العلمین نبی اکرم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ آپ ان کفار سے پوچھیں کہ بتائو آسمانوں اور زمین کا خالق کون ہے ؟ وہ ہرگز اللہ کا نام نہ لیں گے تو آپ خود ہی ان کو بتائیں کہ صرف اللہ ہی خالق ومالک ہے اور وہی وحدہ لاشریک لہ ہے۔ وہی پیدا کرنے والا پالنے والا اور مارنے والا زندہ کرنے والا ہے جب صرف وہی قادر مطلق ہے تو پھر تمہاری عقل کیوں ماری گئی ہے۔ کیوں اللہ سے انکار کرتے ہو اور کیوں ایسی بیکار اور بےاختیار چیزوں کے سامنے جھکتے ہو، دعائیں کرتے ہو ؟ جو خود اپنے نفع اور نقصان پر قدرت نہیں رکھتیں چاہے وہ انسان ہو حیوان ہو نباتات ہو حیوانات ہو یا جمادات ہو سب اللہ کے اختیار میں ہیں۔ ان لوگوں کو پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوسکتے ہیں ؟ اور کیا اندھیرا ور اجالا برابر ہوسکتے ہیں ؟ اندھے سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو اللہ کی قدرتوں، نعمتوں اور اتنی بڑی کائنات کو دیکھ کر بھی اللہ کو نہیں پہچان سکتے اور آنکھوں والے سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں کو دیکھ کر اللہ کی موجودگی، عظمت اور قدرت کو سمجھ لیتے ہیں اور اس کی فرمانبرداری میں جھک جاتے ہیں اس کی وحدانیت کو مان لیتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کفر کو اندھیرے سے اور ایمان باللہ کو اجالے سے تشبیہ دیتا ہے اور وضاحت کرتا ہے کہ کیا ان کے بنائے ہوئے جھوٹے معبود کوئی چیز ایسی بنا سکتے ہیں ؟ جیسی کہ الہ العلمین نے بنائی ہیں ؟ اللہ اپنے پیارے رسول ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو اچھی طرح سمجھا دو ، اعلان کر دو کہ اللہ کے سوا کوئی پیدا کرنے والا نہیں۔ وہی ہر طرح کی قدرت اور طاقت رکھتا ہے وہ اکیلا ہے اور زبردست ہے ؎ ہے عارفوں کو حیرت اور منکروں کو سکتہ ہر دل پہ چھا رہا ہے رعب و جلال تیرا (الطاف حسین حالی) شعر کا مطلب یہ ہے کہ یا الہ العلمین تجھے ماننے والے لوگ ہوں یا تیرا انکار کرنے والے ہوں دونوں پر تو نے اپنا رعب اور جلال یوں ڈال رکھا ہے کہ دونوں ہی قسم کے لوگ تحیر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اور کوئی بھی تیری قدرت اور اختیار سے باہر نہیں۔
Top