Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 88
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ١۫ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ؕ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَ : پختہ عہد بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : بنی اسرائیل لَا تَعْبُدُوْنَ : تم عبادت نہ کرنا اِلَّا اللّٰہَ : اللہ کے سوا وَبِالْوَالِدَیْنِ : اور ماں باپ سے اِحْسَاناً : حسن سلوک کرنا وَذِیْ الْقُرْبَى : اور قرابت دار وَالْيَتَامَى : اور یتیم وَالْمَسَاكِیْنِ : اور مسکین وَقُوْلُوْاْ : اور تم کہنا لِلنَّاسِ : لوگوں سے حُسْناً : اچھی بات وَاَقِیْمُوْاْ الصَّلَاةَ : اور نماز قائم کرنا وَآتُوْاْ الزَّکَاةَ : اور زکوۃ دینا ثُمَّ : پھر تَوَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے اِلَّا : سوائے قَلِیْلاً : چند ایک مِّنكُمْ : تم میں سے وَاَنتُم : اور تم مُّعْرِضُوْنَ : پھرجانے والے
تو کیا سبب ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو ہے ہو حالانکہ خدا نے ان کو ان کے کرتوتوں کے سبب اوندھا کردیا ہے ؟ کیا تم چاہتے ہو کہ جس شخص کو خدا نے گمراہ کردیا ہے اس کو راستے پر لے آؤ ؟ اور جس شخص کو خدا گمراہ کر دے تم اس کے لیے کبھی بھی راستہ نہ پاؤ گے
فمالکم۔ کیوں تم میں۔ فی المنافقین۔ منافقوں کے بارے میں۔ فئتین۔ دو گروہ۔ یعنی کیا وجہ ہے کہ منافقوں کے بارے میں تم دو گروہوں میں ہوگئے ہو۔ بعض لوگ جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا وہ دنیاوی مفاد یا باہمی معاشرتی یا خانگی تعلقات کی وجہ سے مکہ سے یا دیگر مقامات سے ہجرت سے باز ہے۔ بعض انہی وجوہ کی بناء پر مدینہ ہجرت کرنے کے بعد وہاں سے ناسازگی آب و ہوا یا دیگر بہانہ سازی سے واپس اپنے علاقوں کو چلے گئے۔ اور وہاں کم و بیش اپنی کافر قوم کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف ان کی کاروائیوں میں حصہ لیتے رہے۔ مسلمانوں کی رائے ان کے بارے میں مختلف تھیں۔ ایک گروہ ان کو خارج از اسلام گردانتا تھا۔ جب کہ دوسرا گروہ ان کو مسلمان ہی گردانتا تھا۔ کہ کلمہ پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں نماز پڑھتے ہیں۔ ان میں وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو حقیقت میں بالکل مجبور تھے ۔ اور ہجرت نہ کرسکتے تھے۔ اور ان پر ان کے کافر و مشرک افراد طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھاتے تھے قرآن حکیم میں ان کو مستضعفین شمار کیا گیا ہے۔ ارکسھم۔ ماضی واحد مذکر غائب ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ارکاس سے (اللہ نے) ان کو سر کے بل اوندھا گرا دیا ہے۔ ای ردھم الی الکفر۔ ان کو کفر کی طرف الٹا پھیر دیا ہے۔ ارکس اور نکس ہم معنی ہیں۔ اتریدون ان ۔۔ اضل اللہ۔ یعنی مستضعفین کے علاوہ جو اپنی مرضی سے وہیں کفار میں رہ گئے۔ یا آکر واپس چلے گئے انہوں نے دنیاوی مفاد کو اسلام پر ترجیح دی اور کفر کی طرف لوٹا دئیے گئے۔ اب اس میں اختلاف کا کونسا موقع ہے۔
Top