Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 32
وَ یٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ یَوْمَ التَّنَادِۙ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم اِنِّىْٓ اَخَافُ : میں ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر يَوْمَ التَّنَادِ : دن چیخ و پکار
اور اے قوم ! مجھے تمہاری نسبت پکار کے دن (یعنی قیامت) کا خوف ہے
(40:32) یقوم : ای یا قومی اے میری قوم ۔ اے میری قوم کے لوگو ! یوم التناد۔ یہاں التناد سے پہلے اس کا مضاف محذوف ہے ای عذاب یوم التناد۔ ایک دوسرے کو پکارنے کے دن کا عذاب۔ التناد ندی مادہ سے باب تفاعل سے مصدر ہے پکارنا۔ ندا کرنا۔ فریاد کرنا۔ اصل میں تنادی تھا یوم کا مضاف الیہ ہونے کے سبب آخر سے ی جو حرف علت تھی حذف ہوگئی۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت یا نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بناء پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بلند اور حسین ہوگی۔ یوم التناد ایک دوسرے کو پکارنے کا دن۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ فتنادوا مصبحین (68:21) جب صبح ہوئی تو وہ آگ ایک دوسرے کو پکارنے لگے۔ بعض کے نزدیک یوم التناد سے مراد قیامت کا دن ہے اور باہمی پکارنے کے متعلق ملاحظہ ہو : ونادی اصحب الجنۃ اصحب النار (7:44) اور اہل بہشت دوزخیوں سے پکار کر کہیں گے۔ اور ونادی اصحب الناد اصحب الجنۃ (7:50) اور دوزخی بہشتیوں سے (گڑ گڑا کر) کہیں گے۔ وغیرہ۔ اس سے مراد قیامت کے روز آدمیوں کے ہر گروہ کو ان کے پیشوا کے ساتھ پکارا جانا بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :۔ یوم ندعوا کل اناس بامامہم (17:71) جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ضحاک کی قرأت میں یوم التناد کی جگہ یوم التناد (بہ تشدید دال) ہے جس کے معنی بھاگنے اور منتشر ہونے کے دن کا ہے اس صورت میں التناد مادہ ند سے مشتق ہے اصل میں باب تفاعل سے تنادد تھا دوسری دال کو باء سے بدلا تنادی ہوگیا پھر دال کے ضمہ کو کسرہ میں بدل دیا تنادی ہوگیا۔ پھر آخر سے ی کو گرا دیا۔ یناد ہوگیا۔ جس کے معنی ہیں ایک دوسرے سے بدک کر بھاگ جانا۔ اور یوم التناد وہ دن جب لوگ بدک بدک کر بھک دوسرے سے دور بھاگیں گے اس معنی میں قرآن مجید میں ہے یوم یفر المرء من اخیہ وامہ وابیہ وصاحبتہ وبنیہ (80:34 تا 36) اس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا اور اپنی ماں اور باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹے سے۔
Top