Anwar-ul-Bayan - An-Najm : 6
ذُوْ مِرَّةٍ١ؕ فَاسْتَوٰىۙ
ذُوْ مِرَّةٍ ۭ : صاحب قوت ہے فَاسْتَوٰى : پھر پورا نظر آیا۔ سیدھا کھڑا ہوگیا۔ درست ہوگیا
(یعنی جبرئیل) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے
(53:6) ذو مرۃ۔ مضاف مضاف الیہ، صاحب مرۃ۔ مرۃ خوش منظری خوبصورتی و بزرگی، اس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں اور جس طرح رسول بشری (جناب رسول اللہ ﷺ ) اعلیٰ انسانی قوتوں کے حامل، انتہائی حسین و جمیل اور بہترین علوم و کمالات کے ساتھ متصف تھے، اسی طرح اس آیت میں رسول ملکی (حضرت جبرائیل) کو بھی ایسی صفات کا حامل فرمایا گیا ہے کہ وہ خوش منظر، خوبصورت و بزرگ اور شدید القویٰ فرشتہ ہے جس نے بحکم الٰہی رسول اللہ ﷺ کو تعلیم دی۔ (کما حقق ابن القیم (رح) تعالیٰ ۔۔ (قاموس القرآن) امررت الحبل کے معنی رسی بٹنے کے ہیں اور بٹی ہوئی رسی کو مریر یا ممر کہا جاتا ہے اسی سے فلان ذو مرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی طاقت ور اور توانا کے ہیں ذو مرۃ یعنی طاقتور۔ (راغب) مرۃ اصل میں رسی کو بٹنے اور بل دے کر پختہ کرنے اور مضبوط بنانے کے ہیں اس لئے ذومرۃ کا معنی طاقت ور اور زور آور کیا گیا ہے۔ یہ لفظ ذہنی اور جسمانی دونوں قوتوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی لئے حکیم اور دانان کو بھی ذرمرۃ کہتے ہیں۔ قرطبی (رح) لکھتے ہیں :۔ وقال : قطرب : تقول العرب لکل جزل الرای حصیف العقل ذومرۃ عرب ہر عمدہ رائے والے اور پختہ عقل والے کو ذومرۃ بولتے ہیں۔ شدید القوی سے حضرت جبرائیل کی جسمانی قوتوں کا بیان ہے اور ذومرۃ سے ان کی دانشمندی اور عقل کا بیان ہے۔ فاستوی :عاطفہ، استوی ماضی واحد مذکر غائب ۔ اس نے قصد کیا اس نے قرار پکڑا۔ وہ سنبھل گیا۔ وہ چڑھا۔ وہ سیدھا بیٹھا۔ استواء (افتعال) مصدر۔ یہاں بمعنی سیدھا بیٹھا۔ اللہ تعالیٰ کے استوار علی العرش کے سلسلہ میں ۔ استواء کا ترجمہ اکثر محققین نے تمکن واستقراء ۔ یعنی قرار پکڑنے اور قائم ہونے سے کیا ہے۔ مطلب یہ کہ تخت حکومت پر اس طرح قابض ہونا کہ اس کا کوئی حصہ اور کوئی گوشہ حیطہ اقتدار سے باہر نہ ہو۔ اور نہ قبضہ و تسلط میں کسی قسم کی کوئی مزاحمت اور گڑبڑ ہو۔ غرض سب کام اور انتظام درست ہو۔
Top