Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 43
فَلَوْ لَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
فَلَوْلَآ : پھر کیوں نہ اِذْ : جب جَآءَهُمْ : آیا ان پر بَاْسُنَا : ہمارا عذاب تَضَرَّعُوْا : وہ گڑگڑائے وَلٰكِنْ : اور لیکن قَسَتْ : سخت ہوگئے قُلُوْبُهُمْ : دل ان کے وَزَيَّنَ : آراستہ کر دکھایا لَهُمُ : ان کو الشَّيْطٰنُ : شیطان مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے۔ مگر ان کے تو دل ہی سخت ہوگئے تھے۔ اور جو کام وہ کرتے تھے شیطان ان کو (اُنکی نظروں میں) آراستہ کر دکھاتا تھا۔
(6:43) لولا۔ اس کی حسب ذیل صورتیں ہیں : (1) امتناعیہ (اگر نہ) لو حرف شرط اور لا نافیہ سے مرکب ہے۔ لفظاً کوئی تغیر پیدا نہیں کرتا ۔ دو جملوں پر داخل ہوتا ہے۔ جملہ اسمیہ۔ جملہ فعلیہ۔ پہلے جملہ کا ایک جزو ضرور محذوف ہوتا ہے خواہ خبر ہو یا فعل۔ ابن مالک کا قول ہے کہ لولا کے پہلے جملہ کی خبر اگر عام ہو جیسے کائن ثابت وغیرہ تو واجب الحذف ہے۔ اور اگر عمومی خبر نہ ہو بلکہ کسی مادہ کے ساتھ مقید ہو مثلاً اکل۔ شارب۔ قائم۔ قاعد۔ ذاھب۔ ماشی وغیرہ اور بغیر ذکر کے معلوم نہ ہوسکے تو ذکر واجب ہے۔ جیسے حدیث میں حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے لولاقومک حدیث عھد بالاسلام لھدمت الکعبۃ۔ اگر تیری قوم نئی نئی السلام میں داخل نہ ہوئی ہوتی تو میں کعبہ کو ڈھا دیتا۔ (اور ابراہیمی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کرتا) اور ذکر کے بغیر اگر خبر معلوم ہوسکتی ہو تو ذکر و حذف دونوں جائز ہیں۔ مثلاً لولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ (4:83) اگر علیکم۔ فضل اللہ کے متعلق ہو تو خبر محذوف ہوگی۔ ورنہ نازل کے متعلق ہو کر فضل اللہ کی خبر ہوگی۔ اور اگر لولا ضمیر پر داخل ہو تو ضمیر مرفوع ہونی ضروری ہے جیسے لولا انتم لکنا مؤمنین (34:31) مبرد کے نزدیک ضمیر کا مرفوع ہونا ضروری نہیں۔ (2) تحضیض اور عرض کے لئے بھی لالا آتا ہے یعنی فعل پر سختی کے ساتھ ابھارنا (تحضیض) نرمی سے کسی کام کی طلب کرنا (عرض) اس وقت لولا کے بعد مضارع آنا چاہیے۔ خواہ لفظاً ہو یا معنی۔ لولا تستغفرون اللہ (27:46) تحضیض اور لولا اخرتنی الی اجل قریب (63: 10) عرض۔ (3) زجرو توبیخ کے لئے۔ اس وقت یہ ماضی پر داخل ہوگا۔ لولا جاء وا علیہ باربعۃ شھداء (24:13) اور فلولا اذجاء ھم باسنا تضرعوا (6:43) (4) استفہام کے لئے لولا انزل علیہ ملک (6:8) اور لولا اخرتنی الی اجل قریب (63:10) لیکن جمہور اہل ادب کے نزدیک اول آیت میں توبیح اور دوسری آیت میں عرض کے لئے ہے۔ فلولا اذجاء ھم باسنا تضرعوا۔ فلولا تضرعوا اذجاء ھم باسنا۔ پھر جب ہمارا عذاب ان پر آیا تو کیوں نہ انہوں نے زاری کی اور تو نہ کی۔ قست ماضی واحد مؤنث غائب قسوۃ مصدر۔ قسو مادہ ناقص وادی قسا یقسوا (نصر) اصل میں قسوت تھا واؤ ساقط ہو کر قست ہوگیا۔ (دل) سخت پڑگئے۔ خشک ہوگئے حق کو قبول نہیں کرتے۔
Top