Mufradat-ul-Quran - Al-Baqara : 44
فَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ وَ هُمْ یَنْظُرُوْنَ
فَعَتَوْا : تو انہوں نے سرکشی کی عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ : اپنے رب کے حکم سے فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ : تو پکڑ لیا ان کو ایک کڑک نے وَهُمْ يَنْظُرُوْنَ : اور وہ دیکھ رہے تھے
پھر انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی پس ان کو ایک سخت کڑک نے آپکڑا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے رہ گئے
ثمود نے بھی حکم الٰہی کی نافرمانی کی اور ان کو سخت کڑک کے عذاب نے آدبایا 44 ؎ مختصر یہ کہ صالح (علیہ السلام) کی مغرور قوم نے ان کی پیغمبرانہ دعوت و نصیحت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اللہ کے نشان کا مطالبہ کیا تب صالح (علیہ السلام) نے اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی بارگاہ میں دعا کی اور آپ کی دعا قبول ہوئی۔ قبولیت کے بعد اپنی قوم سے فرمایا کہ تمہارا مطلوبہ نشان اونٹنی کی شکل میں موجود ہے یہ میری اونٹنی جس پر میں سوار ہو کر تمہاری بستیوں میں گھومتا پھرتا اور واعظ و درس کا کام کرتا ہوں دیکھو اگر تم نے اس کو کوئی ایذا پہنچائی تو پھر یہی تمہاری ہلاکت کا وقت ہوگا اور تمہاری یہ نافرمانی تمہاری ہلاکت کا نشان ثابت ہوگی۔ انہوں نے یہ بات سنی اور اونٹنی کو گزند پہنچانے کا پختہ اردہ کرلیا اور ایک روز سازش کر کے قداء بن سالف کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اس اونٹنی کی کونچیں کاٹنے میں پہل کری اور باقی سب اس کی اعانت کریں۔ اس سازش کے تحت انہوں نے آپ (ناقۃ) کو ہلا کر ڈالا اور یہ اونٹنی اسلام کی اصطلاح میں (ناقۃ اللہ) کہلائی۔ صالح (علیہ السلام) کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ آبدیدہ ہو کر کہنے لگے اے بدبخت قوم ! آخر تم سے صبر نہ ہوسکا اب اللہ تعالیٰ کے عذاب کا انتظار کرو تین روز کے بعد وہ نہ ٹلنے والا عذاب آئے گا اور تم سب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تہس نہس کر کے رکھ جائے گا۔ ثمود پر عذاب الٰہی کے نشانات آنے والی صبح ہی کو نمودار ہونے لگے اور پہلے ہی روز ان سب کے چہرے اس طرح زور پڑگئے جیسا کہ خوف کی ابتدائی حالت میں ہو ہی جایا کرتے ہیں۔ اور دوسرے روز سب کے چہرے سرخ تھے گویا خوف و دہشت کا یہ دوسرا درجہ تھا اور تیسرے روز ان سب کے چہرے سیاہ تھے اور تاریکی چھائی ہوئی تھی اور یہ خوف و دہشت کا وہ تیسرا مقام ہے جس کے بعد موت ہی کا درجہ باقی رہ جاتا ہے تین دن کی علامات عذاب نے اگرچہ ان کے چہروں کو واقعہ زرد ‘ سرخ اور سا اہ بنا دیا تھا لیکن ان رنگوں کی ترتیبی خصوصیات یہ صاف بتا رہی ہیں کہ ان کے دلوں کو صالح (علیہ السلام) کے سچے ہونے کا یقین تھا اور صرف محض حسد و بغض کے باعث انکار کرتے تھے۔ اب جب کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف وہ جرم کرچکے اور اس کی پاداش میں صالح (علیہ السلام) سے عذاب کی ہولناک خبر سنی تو ان پر خوف و دہشت کے دو فطری رنگ اور نقوش نمایاں ہونے لگے جو موت کے یقین کے وقت خوف و دہشت سے مجرموں کے اندر پیدا ہوا کرتے ہیں۔ بہرحال ان تین یوم کے بعد وقت موعود آپہنچا اور رات کے وقت ایک ہیبت ناک آواز نے ہر شخص کو اسی حالت میں ہلاک کردیا جس حالت میں وہ تھا۔ قرآن کریم نے اس ہلاکت آفریں آواز کو کسی مقام پر (صاعۃ) یعنی کڑک دار آواز بھی کہا اور کسی جگہ (رجفہ) ‘ یعنی زلزلہ ڈالنے والی چیز اور کسی جگہ (طاغیہ) دہشت ناک اور بعض جگہ (صیحہ) (چیخ) فرمایا گیا ہے۔ اور یہ سب ایک ہی طریقہ عذاب کے مختلف اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ اس طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس عذاب کی ہولناکیاں کیسی گوناگوں تھیں۔ تم ایک ایسی کوندنے والی بجلی کا تصور کرو جو بار بار اضطراب کے ساتھ چمکتی ‘ کڑکتی اور گرجتی ہو اور اس طرح کوند رہی ہو کہ کبھی مشرق میں ہے تو کبھی مغرب میں اور پھر جب ان تمام اوصاف کے ساتھ چمکتی ‘ کوندتی ‘ گرجتی ‘ لرزتی لرزاتی ہوئی کسی مقام پر ایک ہولناک چیخ کے ساتھ گرے تو اس مقام اور اس کے نواح کا کیا حال ہوگا ؟ یہ ایک معمولی اندازہ ہے اس عذاب الٰہی کا جو قوم ثمود پر نازل ہوا اور ان کے اور ان کی بستیوں کو تباہ و برباد کر کے سرکشوں کی سرکشی اور مفروروں کے غرور کا انجام ظاہر کرنے کے لئے آنے والی نسلوں کے سامنے عبرت پیش کر گیا۔ ایک طرف قوم ثمود پر عذاب خداوندی نازل ہوا اور دوسری جانب صالح (علیہ السلام) اور ان کے پیرو مسلمانوں کو اللہ نے اپنی حفاظت میں لے لئے اور ان کو اس عذاب خداوندی سے محفوظ رکھا۔
Top