Tafheem-ul-Quran - At-Tawba : 86
اَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّیْلَ لِیَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
اَلَمْ يَرَوْا : کیا وہ نہیں دیکھتے اَنَّا : کہ ہم جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الَّيْلَ : رات لِيَسْكُنُوْا : کہ آرام حاصل کریں فِيْهِ : اس میں وَالنَّهَارَ : اور دن مُبْصِرًا : دیکھنے کو اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں
کیا ان کو سُجھائی نہ دیتا تھا کہ ہم نے رات ان کے لیے سکون حاصل کرنے کو بنائی تھی اور دن کو روشن کیا تھا؟104 اسی میں بہت نشانیاں تھیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے تھے۔105
سورة النمل 104 یعنی بیشمار نشانیوں میں سے یہ دو نشانیاں تو ایسی تھیں جن کا وہ سب ہر وقت مشاہدہ کرر ہے تھے، جن کے فوائد سے ہر آن متمتع ہو رہے تھے، جو کسی اندھے بہرے اور گونگے تک سے چھپی ہوئی نہ تھیں، کیوں نہ رات کے آرام اور دن کے مواقع سے فائدہ اٹھائے وقت انہوں نے کبھی سوچا کہ یہ ایک حکیم کا بنایا ہوا نظام ہے جس نے ٹھیک ٹھیک ان کی ضروریات کے مطابق زمین اور سورج کا تعلق قائم کیا ہے، یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس میں مقصدیت حکمت اور منصوبہ بندی علانیہ نظر آرہی ہے جو اندھے توائے فطرت کی صفت نہیں ہوسکتی، اور یہ بہت سے خداؤں کی کافر فرمائی بھی بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ نظام لا محالہ کسی ایک ہی ایسے خالق ومالک اور مدبر کا قائم کیا ہوا ہوسکتا ہے جو زمین، چاند، سورج اور تمام دوسرے سیاروں پر فرمانروائی کر رہا ہو۔ صرف اسی ایک چیز کو دیکھ کر وہ جان سکتے تھے کہ ہم نے اپنے رسول اور اپنی کتاب کے ذریعہ سے جو حقیقت بتائی ہے یہ رات اور دن کی گردش اس کی تصدیق کر رہی ہے۔ سورة النمل 105 یعنی یہ کوئی نہ سمجھ میں آسکنے والی بات بھی نہیں تھی، آخر انہی کے بھائی بند، انہی کے قبیلے اور برادری کے لوگ، انہی جیسے انسان موجود تھے جو یہی نشانیاں دیکھ کر مان گئے تھے کہ نبی جس پر خدا پرستی اور توحید کی طرف بلا رہا ہے وہ بالکل مطابق حقیقت ہے۔
Top