Ashraf-ul-Hawashi - Al-An'aam : 104
قَدْ جَآءَكُمْ بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ١ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَا١ؕ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ
قَدْ جَآءَكُمْ : آچکیں تمہارے پاس بَصَآئِرُ : نشانیاں مِنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَمَنْ : سو جو۔ جس اَبْصَرَ : دیکھ لیا فَلِنَفْسِهٖ : سو اپنے واسطے وَ : اور مَنْ : جو عَمِيَ : اندھا رہا فَعَلَيْهَا : تو اس کی جان پر وَمَآ : اور نہیں اَنَا : میں عَلَيْكُمْ : تم پر بِحَفِيْظٍ : نگہبان
خبردار1 تمہارے مالک کی طرف سے تم کو دل کی آنکھیں (دلیلیں) پہنچ چکیں (جو اللہ تعالیٰ نے اوپر بیان کیں اب جو کوئی دیکھے2 تو اپنا ہی فائدہ کرے گا اور جو اندھا بن جائے3 تو اپنا ہی برا کرے گا اور میں تم پر داروغہ (کڑوڑی) نہیں ہوں4
1 یعنی آنکھ میں یہ قوت نہیں ہے کہ اس کو دیکھ لے مگر جو وہ آپ کو دکھادے اس واسطے کے لطیف ہے (مو ضح) متعدد احادیث میں ہے کہ قیامت کے دن مومنین کو اللہ تعالیٰ کو دیدار نصیب ہوگا، چناچہ یہ اہل سنت و حدیث کا متفقہ عقیدہ ہے بعض سلف نے لکھا ہے کہ ادراک کے معنی کسی چیز کی حقیقت کو پالینے کے ہیں اور رو یت کے معنی آنکھ سے دیکھنے کے پس ادراک اخص ہے اور رویت اعم اور اعم کے نفی سے اخص کی نفی لاز م نہیں آتی مطلب یہ ہے کہ آیت میں ادراک کی نفی ہے لہذا دنیا رویت ہوسکتی ہے جیسا کہ آخرت میں ہوگی حضرت عائشہ ؓ آنحضرت کے لیے رویت کی نفی کرتی تھیں اور ان کے استدلال کی بنیاد بھی اسی آیت پر تھی جو قرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے مگر حضرت ابن عباس ؓ رویت کے قائل تھے اور کبھی وہ یہ بھی فرماتے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے دل کی آنکھ سے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے (ابن کثیر) مزید دیکھئے سورة النجم (آیت 11 ۔ 13)2 یعنی غور وفکر کر کے ایمان لائے،3 یعنی ان دلیلوں پر غور نہ کرے اور ایمان نہ لائے۔4 کہ تمہیں تمہارے چاہینے یا نہ چاہنے کے باوجود سیدھی راہ پر ڈال سکوں ہدایت دینا یا نہ دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے میرا کام تو یہ ہے کہ بندوں تک اس کا پیغام پہنچا دوں سو وہ پہنچا رہا ہوں
Top