بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ashraf-ul-Hawashi - Al-Anfaal : 1
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ١ؕ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ١۪ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَنْفَالِ : غنیمت قُلِ : کہ دیں الْاَنْفَالُ : غنیمت لِلّٰهِ : اللہ کیلئے وَالرَّسُوْلِ : اور رسول فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَصْلِحُوْا : اور درست کرو ذَاتَ : اپنے تئیں بَيْنِكُمْ : آپس میں وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗٓ : اور اس کا رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
(اے پیمبر) مسلمان تجھ سے لوٹ کے مالوں کو پوچھتے ہیں11 کہہ دے لوٹ کا مال اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ہے12 تو اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور آپس میں مل جل کے رہو (جھگڑا نہ کرو) اور اگر تم میں ایمان ہے تو اللہ اور اس کے رسول کا کہا مانو1
11 بد کے روز جب مسلمان کو ہاتھ مال غنیمت آیا تو اس کے بارے میں جھگڑا کرنے لگے اور آنحضر ﷺ سے اس کا مصرف پو چھنے لگے، اس پر یہ آیت ناز ہوئی ،۔ ( فتح البیان)12 یعنی اس کے با رے میں کوئی فیصلہ کرنا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اختیار میں ہے۔ 1 اس آیت میں اللہ تعا کی اطاعت کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی اطاعت کو بھی ایمان کی شرط قراردیا گیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی طاعت سے مراد، جیسا کہ ظاہر ہے۔ آپ ﷺ کی سنت کی ابتاع ہے۔ لہذا جو شخص آپ ﷺ کی سنت سے منہ موڑکر صرف قرآن کی اطاعت کرنا چاہتا ہے، اگرچہ عملا قطعیکک محال ہے) وہ قرآن کی واضح تصریح کے مطابق دائرہ سے خارج ہے۔ اس آیت کی تشریح میں شاہ صاحب لکھتے ہیں : جنگ میں بعض لڑنے کے لیے آگے بڑھنے اور بعض ( بزرگ) پشت پر رہے جب غنیمت جمع ہوئی تو بڑھنے ( اور لڑنے) والوں ( نوجوانوں) نے کہا یہ ہمارا حق ہے کیونکہ فتح ہم نے کی ہے اور پشتی والوں نے کہا ہے کہ ہماری قوت سے لڑے، حق تعالیٰ نے دونوں کو خاموش کردیا کہ فتح اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے روز کسی کا پیش نہیں جاتا سو مال اللہ کا ہے آگے بہت دور تک یہی بیان فرمایا فتح اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے اپنی وقوت نہ سمجھو۔ (کذافی ابن کثیر)
Top