Asrar-ut-Tanzil - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور (بعض دفعہ) انسان برائی کی اسی طرح درخواست کرتا ہے جس طرح بھلائی کی درخواست کرتا ہے اور انسان (طبعی طور پر ہی) جلد باز ہے
(رکوع نمبر 2) اسرارومعارف تو آخر لوگ کیوں کفر کرتے ہیں جبکہ نہ تو اس سے دنیا میں سکون ملتا ہے اور نہ آخرت کے ۔ (جلد بازی کے فیصلے) انعام کی امید ، تو یہ انسانی مزاج کی جلد بازی ہے اور اس کا یہ حال دار دنیا میں بھی تو ظاہر ہے کہ بعض اوقات جلد بازی میں فیصلہ کرکے ایسی دعا مانگ لیتا ہے جو دنیا میں ہی اس کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے جیسے انہیں دنوں نظر بن حارث نے اسلام کی مخالفت میں بیت اللہ میں دعا کی جو قرآن میں مذکور ہے ترجمہ یہ ہے ” یا اللہ اگر یہ اسلام حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور دردناک عذاب بھیج دے “ اور اللہ جل جلالہ کی شان اس کے فورا بعد بدر میں تباہ ہوئے ، احد میں مار کھائی ، خندق سے ناکام لوٹے اور بالآخر مکہ مکرمہ فتح ہو کر وہاں سے کفار ومشرکین کا نام مٹ گیا ، (قابل غور تو شب وروز ہی کافی ہیں) اگر انسان جلد بازی نہ کرے اور اللہ کریم کی دی ہوئی عقل کو استعمال کرے تو کیا یہ شب وروز اللہ جل جلالہ کی عظمت کے گواہ نہیں ؟ یقینا ہیں کہ رات کی تاریکی اپنے دامن میں انسانی کردار کے کتنے بدنما داغ چھپا کر ہر جاندار کو نیند اور آرام کی گھڑیاں مہیا کرتی ہے اور حیوانی ابدان دن بھر میں جو قوت کار خرچ کرتے ہیں شب بھر میں وہ پھر سے بحال ہوجاتی ہے ۔ پھر دن روشنی بکھیرتا ہوا نمودار ہوتا ہے اور جدوجہد حیات کا نئے سرے سے آغاز ہوجاتا ہے ، ایک چیونٹی اور ایک مکھی سے لے کر انسان تک حصول رزق اور بقائے حیات کے لیے سرگرم عمل نظر آتے ہیں اور انسان اپنے پروردگار کی پیدا کردہ نعمتوں کے حصول میں کوشاں ہوتا ہے ، نیز یہ شب وروز دونوں ، مہینوں اور سالوں وغیرہ کی گنتی اور حساب کا کام بھی تو دیتے ہیں۔ (شمسی حساب بھی درست ہے) اگر ایک سا عالم رہتا تو شمار کرنا محال ہوتا تو گویا شمسی حساب رکھنا اور تاریخیں شمار کرنا درست ہے ، اگرچہ عبادات مثلا حج رمضان وغیرہ قمری حساب سے مقرر فرمائے گئے ہیں تو کیا یہ رات دن کے لانے اور تبدیل کرنے میں جتنی بڑی صنعت اور کتنا بڑا نظام بغیر کسی خرابی سے اور بغیر کسی رکاوٹ وتاخیر کے روز اول سے بدستور چل رہا ہے ، یہ اپنے چلانے والے کی عظمت ، حکمت اور قدرت پہ کم گواہ ہے ؟ ہم نے تو ہدایت کے لیے اور انسانی عقل و شعور کی راہ نمائی کے لیے ہر شب بہت تفصیل سے بیان کی ہے ، اب انسانی فکر پہ مدار ہے کہ وہ کیا سوچتا ہے ، مگر یہ جان لو کہ ہم نے ہر انسان کے کردار کو اس کے گلے کا ہار بنا دیا ہے اور وہ جہاں جاتا ہے اپنی بداعمالی کے اثرات ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہے ، دنیا کے معاملات میں دیکھ لیں ، افراد سے لے کر اقوام تک کے حالات پہ نظر کریں یا دار آخرت ہو تو وہاں تو اعمالنامہ کھول کر ہر انسان کے ہاتھ میں تھما دیا جائے گا ، اور حکم دیا جائے گا کہ اپنا اعمالنامہ پڑھ لو اور یہ جان لو کہ تم خود ہی اپنے لیے بہترین منصف ہو ، یعنی ہر عمل کو دیکھتے جاؤ کہ دنیا میں جب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں تھا تو تم نے کتنے امور میں اللہ کی اطاعت کی آج تمہارا ہی فیصلہ لاگو ہوگا اور اجر پاؤ گے یا پھر تم نے کس قدر نافرمانی کرنے کا فیصلہ کیا تھا آج اسی فیصلے کے مطابق سزا پاؤ گے ۔ اگر کوئی سیدھی راہ اپناتا ہے اور اللہ جل جلالہ کی اطاعت کا فیصلہ کرتا ہے اور اس پر عمل کرنے میں کوشاں ہوتا ہے تو یہ کسی پہ احسان نہیں بلکہ وہ اپنے بھلے کو کرتا ہے کہ کل اجر پائے گا اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے ، اس کی سزا بھی وہ کود ہی بھگتے گا کہ کسی دوسرے انسان پر کسی کا بوجھ نہ ڈالا جائیگا ، (کفار کی نابالغ اولاد) صاحب تفسیر مظہری اور دوسرے مفسرین نے یہاں سے اخذ کیا ہے کہ کفار کی نابالغ اولاد محض والدین کے کفر کے باعث دوزخ میں نہ جائے گی ، نیز جب تک ہم کسی کو اسباب ہدایت میسر نہیں کرتے اس کی گرفت بھی نہیں کی جاتی اور اسے عذاب نہیں کیا جاتا یہاں نبعث رسولا کی مراد اسباب ہدایت اس لیے کی ہے کہ مفسرین کرام کے نزدیک اللہ کریم نبی بھیج دے یا محض عقل عطا کر دے تو بھی اس کی قدرت کی نشانیاں دیکھ کر اس کے لاشریک اور بےمثل ہونے کا اقرار تو ضروری ہے اور جہاں نبی کی تعلیم نہ پہنچے وہاں یہ اقرار ہی باعث نجات بھی ہے ۔ (عیاش اور بدکار حکمران تباہی کی طرف لے جاتے ہیں) اور جب کسی بھی قوم کی نافرمانی اس حد کو پہنچتی ہے کہ اسے ہلاک کردینے سے پھر وہ لوگ اللہ جل جلالہ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں خواہ بوساطت نبوت پہنچے یا کم از کم عقلی اور شعوری دلائل سے تو عظمت الہی کے ثبوت سامنے ہوتے ہیں مگر دولت مند لوگ عیاشی میں مبتلا ہو کر عوام کو بھی اپنی راہ پر لگا لیتے ہیں ، کہ انسانی مزاج ہی ایسا ہے کہ لوگ امرا کے پیچھے چلنے لگتے ہیں اور انجام کار سب تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں ، چناچہ نوح (علیہ السلام) کے بعد بھی جب لوگ دنیا میں آباد ہوئے بڑھے پھلے تو کتنی بہت سی اقوام تباہ وبرباد ہوئیں ، جن کے حالات انسانی عبرت کے لیے کافی ہیں ، اور آپ رب انسانوں کے کردار کو بہت بہتر جانتا ہے اور لوگوں کی نافرمانی پہ وہ خود ہی بہت بڑا نگران ہے ، چناچہ جو کوئی جیسا کرتا ہے بھرتا ہے ۔ (نیت اور ارادہ) اگر کوئی عمل ہی بنیادی طور پر دنیا کے حصول کی خاطر کرتا ہے یعنی اسے آخرت پہ یقین حاصل نہیں ، اور صرف دنیا کے فوائد حاصل کرنے کے لیے مختلف صورتیں اختیار کرتا ہے خواہ وہ صورت بظاہر بھلائی ہی ہو تو اسے دنیا اس کی خواہش کے مطابق نہیں ملتی بلکہ اللہ جل جلالہ جتنی چاہتا ہے دیتا ہے ہاں اس کی نیت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ ذلیل ورسوا ہو کر جہنم میں داخل ہوتا ہے اور آخرت میں اسے کچھ نہیں ملتا اور اگر کوئی نیت حصول آخرت کی کرتا ہے اور پھر صحیح محنت اور درست اقدامات کرتا ہے یعنی عمل سنت کے مطابق کرتا ہے نیز عقیدہ کھرا رکھتا ہے ۔ (حصول آخرت کے لیے بنیادی باتیں) گویا حصول آخرت کے لیے چار چیزیں ضروری ہیں ، اول نیت و ارادہ کہ عقلی دلائل کا مشاہدہ ومطالعہ کرکے یا دعوت الی اللہ پا کر آخرت کے حصول کا ارادہ کرے ، دوسرے صرف ارادہ پہ نہ بیٹھ رہے عمل کرے اور تیسرے عمل اپنی پسند سے نہ کرے کہ یہ رواجات ، رسومات اور بدعات جتنی بھی دلکش ہوں ان کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ عمل کی بنیاد سنت رسول ﷺ پہ ضروری ہے اور چوتھی اور آخری بات عقیدہ کی صحت ہے ، اگر عقیدہ ہی درست نہ ہو تو پھر کوئی عمل بھی مقبول نہیں ہوتا مگر جن میں یہ شرائط پائی جائیں ایسے لوگوں کی محنت ٹھکانے لگتی ہے جو حقیقی کامیابی ہے وہ انہیں نصیب ہوتی ہے ۔ (دولت دنیا مقبولیت کا معیار نہیں) جہاں تک تیسرے پروردگار کی ربوبیت کا تعلق ہے تو وہ عام ہے ، نیک وبد مومن وکافر دولت دنیا اور صحت واولاد وغیرہ نعمتیں پا رہے ہیں ، دونوں طرف سب لوگ ایک سے نہیں اور نہ ہی اس کی شان ربوبیت کو کوئی شے روک سکتی ہے ، دنیا کا رزق ہر ایک کو دیتا ہے اور اپنی حکمت بالغہ سے ان میں درجہ بندی کردی ، امیر غریب اور حاکم وماتحت بنا دیئے مگر یہ حال تو گذر جائے گا اصل نعمت تو آخرت کی ہے جسے کفار یا نافرمان نہیں پاسکیں گے بلکہ اطاعت شعاروں کا حصہ ہے اور وہ بہت بڑی نعمت ہے درجات کے اعتبار سے بھی عظیم اور فضیلت کی رو سے بھی بہت بڑی ۔ لہذا اے مخاطب کبھی بھی اور کسی بھی طرح اللہ جل جلالہ کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت نہ کر اور معبود برحق کی توحید کو خالص اور کھرا رکھ ورنہ سب کچھ لٹا پٹا کر بیٹھ رہے گا نہ عمل باقی بچے گا اور نہ کوئی محنت : ۔
Top