Asrar-ut-Tanzil - Maryam : 83
اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اَنَّآ اَرْسَلْنَا : بیشک ہم نے بھیجے الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) تَؤُزُّهُمْ : اکساتے ہیں انہیں اَزًّا : خوب اکسانا
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ بیشک ہم نے شیاطین کو کفار پر چھوڑ رکھا ہے وہ ان کو (گمراہی پر) خوب ابھارتے رہتے ہیں
(رکوع نمبر 6) اسرارومعارف (انسان پر شیطان کا تسلط) یہ ان کے کردار سے ظاہر ہے کہ اللہ جل جلالہ نے ان کے بداعمال اور کفر کی سزا کے طور پر شیطانوں کو ان پر غلبہ دے دیا ہے اور وہ شیطان انہیں ہر لمحہ برُائی پر ابھارتے رہتے ہیں اور اسی کو ان کی نگاہوں میں سجاتے رہتے ہیں ۔ لہذا جلدی کی تو کوئی بات نہیں کہ پہلے ہی انسان کے پاس بہت محدود سی زندگی ہے اور وہ اوقات تو اسے پورا کرنے کی اجازت ہے نیز یہ اس روز قابل دید حال میں ہوں گے جب مومینن بہت عزت واحترام کے ساتھ اللہ کریم جو بہت رحم کرنے والا ہے کہ بارگاہ میں مہمانی سے مشرف ہو رہے ہوں گے اور یہ بدکار جہنم کی طرف پیاسے ہانکے جا رہے ہوں گے ایسی حالت میں کہ کوئی ان کا سفارشی اور ان کی طرفداری میں بات کرنے والا بھی نہ ہوگا کہ وہاں شفاعت بھی اللہ کے وعدے اور اجازت سے ہوگی اور اس نے کفار کی شفاعت سے بھی روک دیا ہے ۔ ان کے ذلیل ہو کر جہنم میں گرنے کی بات پہ حیرت ہونی چاہیے کہ ان کا جرم بھی اتنا ہی بڑا ہے یہ دعوے کرتے تھے کہ اللہ جل جلالہ کا بیٹا ہے اور یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائے زمین شق ہوجائے اور پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجائیں ، اگر انہیں کہا جائے کہ کہو اللہ جل جلالہ کا بیٹا ہے ۔ (ہر شے میں زندگی ہے اور شعور بھی) گویا آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں تک میں زندگی بھی ہے اور شعور بھی اور کفر کرنے سے وہ بھی لرزہ براندام ہوتے ہیں اور اگر ذکر ہی سے غافل ہوں تو تباہ ہوجاتے ہیں ، چہ جائیکہ کفر کریں ، اللہ کریم کی عظمت کو بیٹا کب زیبا ہے یہ تو اس کی شان ہی کے خلاف ہے کہ بیٹا تو باپ ہی کی مثل ہوتا ہے اور وہ اپنی ذات میں بھی اور صفات میں بھی یکتا ہے ، زمینوں اور آسمانوں کی ساری مخلوق تو اس کی غلام ہے جن کی زندگی کے لمحات کو بھی اس نے شمار کر رکھا ہے اور سب مخلوق نے فردا فردا اس کے سامنے روز حشر کو جواب دینا ہے اگر بیٹا ہوتا تو غلام نہ ہوتا ایک اور مالک ہوتا جو کبھی بھی ممکن نہیں ۔ (خلوص سے محبت مقبولیت کی دلیل ہے) جو لوگ ایمان لاتے ہیں یعنی درست عقیدہ اختیار کرتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں ان میں رب کریم محبت پیدا کردیں گے یوم حشر جب کفار ایک دوسرے کو الزام دیں گے یہ ایک دوسرے کی سفارش کا سبب ہوں گے نیز نیک لوگوں کو دنیا میں بھی آپس میں خلوص کے ساتھ اور بےلوث محبت نصیب ہوجاتی ہے ورنہ تعلقات اغراض کے محتاج رہتے ہیں ۔ (قرآن کو آپ ﷺ سے ہی سمجھا جاسکتا ہے) اور اے میرے حبیب ﷺ یہ قرآن آپ کی زبان پر سہل کردیا گیا ہے یعنی آپ ﷺ سمجھائیں تو بہت آسان ہے ورنہ انسانی شعور سے بالاتر ہے کہ کوئی آپ ﷺ کی ذات سے الگ ہو کر سمجھنا چاہے تو تاریخ گواہ ہے ایسے لوگ گمراہ ہوگئے کہ آپ ﷺ نیک بندوں کو بشارت دیں اور جھگڑنے والے بدکاروں اور کفار کو آنے والے برے انجام سے بروقت ڈرائیں کفر اور بدکاری کا دنیاوی انجام تو ان کے سامنے بھی ہے کہ اس جرم میں کیسی کیسی نامور قومیں تباہ ہوئیں کیا اب کوئی ان کی بھنک بھی پاتا ہے ؟ یعنی صفحہ ہستی سے یوں مٹ گئیں جیسے تھیں ہی نہیں اور آخرت کے عذاب اس پر مزید ۔
Top