بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - An-Naml : 1
طٰسٓ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَ كِتَابٍ مُّبِیْنٍۙ
طٰسٓ : طا۔ سین تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْقُرْاٰنِ : قرآن وَكِتَابٍ : اور کتاب مُّبِيْنٍ : روشن واضح
طٰسٓ ۔ یہ قرآن اور روشن کتاب کی آیتیں ہیں
سورة نمل رکوع نمبر 1: آیات 1 تا 14 ۔ اسرار و معارف : طس۔ یہ قرآن کی آیات ہیں جو ایک کھلی کتاب ہے یعنی جو حقائق کو واضح کرکے بیان کرتی ہے اور باعث ہدایت بھی ہے اور نوید کامرانی بھی ان لوگوں کے لیے جو اس پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے یقین کی دلیل یہ ہے کہ عملاً اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اور عبادات کے ادا کرنے میں پوری کوشش کرتے ہیں زکوۃ ادا کرتے ہیں یعنی کردار میں بھی اور معیشت میں بھی اللہ کی اطاعت کرتے ہیں۔ اور یہ سب کسی دنیاوی فادے یا لالچ میں نہیں کرتے بلکہ انہیں آخرت اور روز جزا پر یقین کامل ہے لہذا اس روز کی کامیابی کے خواہشمند ہیں۔ اور ایسے لوگ جو آخرت پر یقین نہیں کرتے ان کو سزا کے طور پر ان کے اعمال بدہی خوبصورت دکھائے جاتے ہیں اور یوں وہ انہیں کاموں میں مزید آگے بھٹکتے چلے جاتے ہیں ایسے لوگ ایک دردناک عذاب میں مبتلا رہتے ہیں اور آخرت میں بھی بہت بڑا نقصان اٹھانے والے ہیں لیکن ان کے نہ ماننے سے قرآن کی صداقت پہ تو حرف نہیں آسکتا۔ کہ یہ تو آپ کے پاس اللہ کی طرف سے جو بہت بڑا علم رکھنے والا اور حکمت والا ہے نازل ہو رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے آپ دل برداشتہ نہ ہوں کہ پہلے انبیاء بھی بڑی صداقتوں اور معجزات کے ساتھ مبعوث ہوئے مگر بدنصیب لوگوں نے ان کی بات ماننے سے بھی انکار کردیا ۔ جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کہ جب مصر کو واپس روانہ ہوئے گھر والے بھی ساتھ تھے کہ جنگل میں راستہ بھول گئے اور سردی بھی تھی ایک طرف وادی میں آگ نظر آئی تو گھر والوں سے فرمایا کہ آپ بیٹھیں میں آگ دیکھ رہا ہوں امید ہے وہاں کسی سے راستہ بھی پوچھ لوں گا اور آپ کے لیے لکڑی سلگا کرلے آؤں گا تاکہ سرد رات میں تاپ سکو۔ مگر جب قریب پہنچے تو آواز آئی کہ برکت ہو ان پر بھی جو آگ کے اندر ہیں اور اس پر بھی جو پاس کھڑے ہیں۔ انوارات الہیہ کا مشاہدہ اور کلام باری : گویا وہ دنیا کی آگ نہ تھی انوارات تھے جن میں فرشتے بھی تھے اور ان پر سلامتی بھیجی گئی مگر کلام اللہ کا ذاتی تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) نے بےکیف اور بےجہت سنا یعنی نہ اس کی کوئی کیفیت متعین ہوسکتی تھی اور نہ خاص جگہ بلکہ آواز ہر طرف سے آ رہی تھی جیسے صرف کان ہی نہیں سن پا رہے تھے بلکہ سارا بدن پاؤں سے سر تک کان کا کام کر رہا تھا۔ تجلی ذاتی تھی یا نہیں : یہ سوال کہ یہ انوارات تجلی ذاتی تھے یا نہیں اس پر مفسرین کرام نے بہت کچھ لکھا ہے مگر فقیر کو جو علم نصیب ہے اس کے مطابق یہ تجلی صفاتی تھی کہ اس میں ملائکہ بھی تھے نیز یہ تعلیم کے لیے تھی اور علم صفت ہے رہا یہ مسئلہ کہ نظر آنے والی آگ میں خود اللہ موجود تھے تو اس کی تردید فرما دی گئی کہ اللہ حلول سے پاک ہے وہ ان باتوں سے بلند ہے کہ اس کی ذات کسی وجود میں حلول کرے بلکہ وہ سارے وجودوں کا خالق اور باقی رکھنے والا ہے نگہبان ہے لہذا خطاب فرماتے ہوئے مزید ارشاد ہوا کہ اے موسیٰ میں اللہ ہوں جو غالب اور حکمتوں والا ہے اور آپ کو یہاں بلانا میری حکمت کا تقاضا ہے اب آپ میری قدرت کا تماشہ دیکھیں ذرا اس ہاتھ کی لاٹھی کو ڈال دیں جب انہوں نے عصا ڈال دیا تو ایک بہت بڑا اژدھا بن کر لہرانے لگا موسیٰ (علیہ السلام) ڈر گئے اور یوں بھاگے کہ مڑ کر بھی نہ دیکھا تو ارشاد ہوا آپ ڈریں نہیں آپ کو تو رسالت عطا ہوئی ہے اور میرے رسول میری بارگاہ میں ڈرا نہیں کرتے۔ انبیاء میں بھی فطری خصوصیات ہوتی ہیں : اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ انبیاء کرام میں بھی انسانی فطری خصوصیات ہوتی ہیں اگر کہیں ان کا اظہار نہ ہو تو وہ بطور معجزہ ہوتا ہے۔ اور فرمایا آپ بھلا کیوں ڈریں میری بارگاہ میں تو اس گناہگار کو بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں جس نے گناہ سے توبہ کرکے نیکی کا راستہ اختیار کرلیا ہو کہ میں بخشنے والا اور مہربان ہوں اب دوسرا معجزہ یہ ہے اپنا ہاتھ گریبان کے اندر کیجیے اور باہر نکالیں گے تو چاند کی طرح روشن ہوگا اور ان سمیت ایسے نو معجزات آپ کو دئیے جاتے ہیں اب آپ فرعون اور اس کی قوم کے پاس جائیں کہ وہ گناہ آلود زندگی میں ڈوبے ہوئے ہیں پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس پہنچے اور معجزات ظاہر فرما کر اللہ کی طرف دعوت دی تو وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ سب جادو ہے۔ کفر جحودی : یہ ان کا کفر جحودی تھا کہ ان کے دل بھی مان چکے تھے کہ یہ سب جادو نہیں اللہ کے عطا کردہ معجزات ہیں مگر ضد کے باعث انکار کر رہے تھے اور یہ بہت بڑا ظلم اور اظہار تکبر تھا جس کے وہ مرتکب ہوئے چناچہ دیکھ لیجیے کہ ایسے فسادیوں کا کیسا برا انجام ہوا اور غرق ہو کر تباہ ہوگئے اور آگ میں داخل کیے گئے۔
Top