Asrar-ut-Tanzil - Al-Fath : 18
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ
لَقَدْ : تحقیق رَضِيَ اللّٰهُ : راضی ہوا اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں سے اِذْ : جب يُبَايِعُوْنَكَ : وہ آپ سے بیعت کررہے تھے تَحْتَ الشَّجَرَةِ : درخت کے نیچے فَعَلِمَ : سو اس نے معلوم کرلیا مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ : جو ان کے دلوں میں فَاَنْزَلَ : تو اس نے اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) عَلَيْهِمْ : ان پر وَاَثَابَهُمْ : اور بدلہ میں دی انہیں فَتْحًا : ایک فتح قَرِيْبًا : قریب
(اے پیغمبر) جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا۔ اور جو (صدق وخلوص) ان کے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کرلیا۔ تو ان پر تسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی
چودہ سو صحابہ اور بیعت رضوان پہلے بیان ہوچکا ہے کہ یہ بیعت کرنے والے چودہ سو کی تعداد میں تھے اور یہ درخت ببول کا تھا جو حدیبیہ کے میدان میں تھا، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن جب حج کو گئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ایک جگہ نماز ادا کر رہے ہیں پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ تو جواب ملا کہ یہ وہی درخت ہے جہاں رسول اللہ ﷺ سے بیعت الرضوان ہوئی تھی۔ حضرت عبدالرحمن نے واپس آکر یہ قصہ حضرت سعید بن مسیب سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا میرے والد صاحب بھی ان بیعت کرنے والوں میں تھے ان کا بیان ہے کہ بیعت کے دوسرے سال ہم وہاں گئے لیکن ہم سب کو بھلا دیا گیا وہ درخت ہمیں نہ ملا پھر حضرت سعید فرمانے لگے تعجب ہے کہ اصحاب رسول ﷺ سے بھی زیادہ جاننے والے ہو۔ پھر فرمایا ہے ان کی دلی صداقت نیت وفا اور سننے اور ماننے والی عادت کو اللہ نے معلوم کرلیا پس ان کے دلوں میں اطمینان ڈال دیا اور قریب کی فتح انعام فرمائی۔ یہ فتح وہ صلح ہے جو حدیبیہ کے میدان میں ہوئی جس سے عام بھلائی حاصل ہوئی اور جس کے قریب ہی خیبر فتح ہوا پھر تھوڑے ہی زمانے کے بعد مکہ بھی فتح ہوگیا پھر اور قلعے اور علاقے بھی فتح ہوتے چلے گئے۔ اور وہ عزت و نصرت و فتح و ظفر و اقبال اور رفعت حاصل ہوئی کہ دنیا انگشت بدنداں حیران و پریشان رہ گئی۔ اسی لئے فرمایا کہ بہت سی غنیمتیں عطا فرمائے گا۔ سچے غلبہ والا اور کامل حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے ہم حدیبیہ کے میدان میں دوپہر کے وقت آرام کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے منادی نے ندا کی کہ لوگو بیعت کے لئے آگے بڑھو روح القدس آچکے ہیں۔ ہم بھاگے دوڑے حاضر حضور ﷺ ہوئے آپ اس وقت ببول کے درخت تلے تھے ہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی جس کا ذکر آیت (لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا 18؀ۙ) 48۔ الفتح :18) میں ہے۔ حضرت عثمان کی طرف سے آپ نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر خود ہی بیعت کرلی، تو ہم نے کہا عثمان بڑے خوش نصیب رہے کہ ہم تو یہاں پڑے ہوئے ہیں اور وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوں گے یہ سن کر جناب رسول مقبول ﷺ نے فرمایا بالکل ناممکن ہے کہ عثمان ہم سے پہلے طواف کرلے گو کئی سال تک وہاں رہے۔
Top