Baseerat-e-Quran - Aal-i-Imraan : 23
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُدْعَوْنَ اِلٰى كِتٰبِ اللّٰهِ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ وَ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يُدْعَوْنَ : بلائیے جاتے ہیں اِلٰى : طرف كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب لِيَحْكُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کرے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر يَتَوَلّٰى : پھرجاتا ہے فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْھُمْ : ان سے وَھُمْ : اور وہ مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیرنے والے
اے نبی ﷺ ! کیا آپ نے (ان علماء یہود) کو نہیں دیکھا جنہیں اللہ کی کتاب کا کچھ علم دیا گیا تھا۔ ان کو اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے تو ان میں سے ایک گروہ بےرخی اختیار کرتا ہوا منہ پھیر لیتا ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 23 تا 25 نصیب (حصہ) یدعون (وہ پکارے گئے (پکارے جاتے ہیں) لیحکم (تاکہ وہ فیصلہ کردے) یتولیٰ (پلٹ جاتا ہے منہ پھیر لیتا ہے) معرضون (وہ بےرخی اختیار کرتے ہیں، منہ پھیرتے ہیں) غرھم (اس نے ان کو دھوکہ میں ڈال دیا) یفترون (وہ گھڑتے ہیں) جمعنھم (ہم نے ان کو جمع کیا (ہم ان کو جمع کریں گے) وفیت (پوراپورا دیا (جائے گا) ۔ تشریح : آیت نمبر 23 تا 25 سورة ال عمران کی آیت 23 سے 25 تک کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس بات کے دعویدار تھے کہ ہم اہل کتاب ہیں اور اس پر انہیں ناز بھی تھا جب ان کو ان ہی کی کتاب کی طرف یہ کہہ کر بلایا جاتا ہے کہ تم اپنے فیصلے اپنی ہی کتاب کے ذریعے کرلو تو وہ بجائے اللہ کا حکم ماننے کے اپنی رسم و رواج کی طرف مائل ہوتے رہتے ہیں۔ فرمایا اے نبی ﷺ جب وہ اپنی کتاب کی پرواہ نہیں کرتے تو یہ آپ کے لائے ہوئے دین کی اگر پرواہ نہ کریں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ انسان کو جب نافرمانی کی عادت پڑجاتی ہے تو وہ کسی اپنے یا غیر کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے غلط عقدوں نے انہیں بربادی کے اس گڑھے تک پہنچادیا ہے جہاں ان کی زبانوں پر یہی بات ہے کہ آخرت میں اول تو جہنم کی آگ ہمیں چھوئے گی ہی نہیں کیونکہ جنت تو صرف ہمارے لئے لیکن اگر جہنم میں جانا ہی ہوا تو گنے چنے چند دن میں فرق ہی کیا پڑتا ہے۔ ابدی راحتیں تو یقیناً ہمارے ہی لئے ہیں۔ (نعوذباللہ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی خوش فہمیاں اپنی جگہ لیکن اگر یہ اس وقت کا ذرا بھی تصور کرلیں جب آخرت میں ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا تو پھر ان کے ہوش ٹھکانے آسکتے ہیں۔
Top