Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 21
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ۙ وَّ یَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
اِنَّ
: بیشک
الَّذِيْنَ
: وہ جو
يَكْفُرُوْنَ
: انکار کرتے ہیں
بِاٰيٰتِ
: آیتوں کا
اللّٰهِ
: اللہ
وَيَقْتُلُوْنَ
: اور قتل کرتے ہیں
النَّبِيّٖنَ
: نبیوں کو
بِغَيْرِ حَقٍّ
: ناحق
وَّيَقْتُلُوْنَ
: اور قتل کرتے ہیں
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَاْمُرُوْنَ
: حکم کرتے ہیں
بِالْقِسْطِ
: انصاف کا
مِنَ النَّاسِ
: لوگوں سے
فَبَشِّرْھُمْ
: سو انہیں خوشخبری دیں
بِعَذَابٍ
: عذاب
اَلِيْمٍ
: دردناک
یقینا جو لوگ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ان لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو لوگوں میں انصاف (کرنے) کا حکم دیتے ہیں سو ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادیں
آیات 21- 30 اسرارو معارف ان الذین یکفرون………………لا یظلمون۔ بعض طبائع مسخ ہوجاتے ہیں اور ایسے برباد ہوتے ہیں کہ نسلوں تک میں ان کا اثر پایا جاتا ہے فرمایا یہ معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ آج کے اہل کتاب صرف آپ ﷺ کی نبوت کا ہی انکار نہیں کر رہے بلکہ جن کے یہ متبع ہیں۔ وہ تو انبیاء (علیہم السلام) کو ظلماً قتل بھی کرتے تھے بلکہ جن لوگوں نے انصاف کا حکم دیا یا سچی اور کھری بات کہی تو انہیں بھی قتل کردیا۔ تو اے نبی ! ﷺ ان کو دردناک عذاب کی بشارت یعنی اطلاع دے دی۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ نبی اسرائیل یعنی یہودنے دن کے اول حصہ میں محض اقتدار اور حکومت کے لالچ میں چالیس انبیاء کو قتل کردیا حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ یہ قتل ناحق ہے اسی لئے بغیر حق ارشاد ہوا ۔ ورنہ انبیاء کا قتل تو ناحق ہی تھا یہاں بغیر حق کہنے سے مراد کہ خود ان کے نزدیک بھی ناحق تھا اور پھر اس قتل ناحق پر ملامت کرنے اور حق کا حکم کرنے کے لئے ان کے متبعین میں سے ایک سو بیس آدمی کھڑے ہوگئے۔ اسی روز پچھلے پہر ان کو بھی قتل کردیا۔ تو یہ یہود چونکہ انہی کے پیروکار اور ان کے افعال پر راضی ہیں۔ تو ان کا مزاج ہی دیکھ لیں۔ یہ حق کو حق جان کر بھی قبول نہ کریں گے۔ ایسے بدکاروں کو دردناک عذاب کی خبر کردیں۔ بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے اعمال رائیگاں ہوگئے۔ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوں گے اور آخرت میں بھی عذاب کا شکار اور کوئی ان کی مدد کرنے والا نہ ہوگا۔ آپ ﷺ دیکھیں تو کیسی تعجب خیزبات ہے کہ جن لوگوں کو توراۃ کا تھوڑا سا علم دے دیا گیا کہ پوری توراۃ تو نہ ان کے پاس تھی نہ ساری پہ ان کا ایمان تھا۔ جب ان کو اللہ کی کتاب کے فیصلہ کی دعوت دی جاتی ہے کہ آپ کی ذات اور بعثت کے بارے تو اس توراۃ میں بھی موجود تھا جو ان کے پاس تھی اور یا پھر قرآن کریم کی ارشاد کے مطابق دعوت دی جاتی ہے کہ اس کے مطابق فیصلہ کرلیں تو ان میں ایک گروہ کترا کے نکل جاتا ہے اور کتاب اللہ کے فیصلے سے منہ موڑ لیتا ہے یعنی وہی آبائی مزاج ہے کہ ریاست کے لالچ میں انبیاء (علیہم السلام) کو ظلماً شہید کیا۔ یہ بدکار بھی بجائے اتباع کے حضور پرنور ﷺ کے قتل کے درپے رہے۔ مسلمانوں کو ان پر اعتبار نہ کرنا چاہیے۔ اللہ اس قوم کو ہدایت نصیب فرمائے اور دین کے رہزنوں سے محفوظ رکھے ! آمین۔ فرمایا کہ ذرا غور کرو ، اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ان سب کو اس روز اکٹھا کریں گے جس کے وقوع میں ذرا برابر شبہ نہیں اور پھر ہر شخص کو اس کے اپنے عمل کا پورا پورا بدلہ دیں گے۔ نہ نیکی میں سے کوئی شے گھٹائی جائے گی ، نہ بدی میں کوئی اضافہ کیا جائے گا اور کسی کی حق تلفی نہ کی جائے گی جیسے کہ انہوں نے فرض کررکھا ہے۔ قل اللھم مالک الملک…………بغیر حساب۔ بدرواحد میں تباہی سے دو چار ہونے کے بعد مشرکین واہل کتاب سب میں ایک ہیجان پیدا ہوگیا اور حسد کی آگ میں جلنے لگے کہ ان کی نظروں کے سامنے ایک اسلامی ریاست تشکیل پارہی تھی۔ سب نے سازش تیار کی اور فیصلہ ہوا کہ یہود نصاریٰ اور مشرکین عرب سب مل کر یکبارگی مدینہ منورہ پر حملہ کردیں اور اسلام اور مسلمانوں کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔ اس غرض سے ایک بہت بڑا لشکر تیار ہو کر مدینہ منورہ کی طرف بڑھا۔ اس جنگ کو غزوہ احزاب یا غزوہ خندق کہا جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورہ سے شہر کے گرد خندق کھودنے کا حکم دیا۔ تقریباً چالیس ہاتھ جگہ دس دس صحابہ ؓ میں بانٹی گئی جس کی چوڑائی اور گہرائی بھی اسی قدر تھی کہ کوئی سواریا پیادہ اسے عبور نہ کرسکے۔ وقت بہت کم تھا مگر جاں نثار صحابہ ؓ اس طرح کام میں جتے کہ کھانے اور رفع حاجت تک کے لئے وقت نکالنا مشکل ہورہا تھا۔ لوگوں نے بھوک کی وجہ سے پیٹوں پر پتھر باندھے۔ خود سرور عالم ﷺ نے شکم مبارک پر دو پتھر باندھے تھے اور کام مطلوبہ چند دنوں کے اندر مکمل ہوگیا۔ اثنائے کار ایک جگہ کھدائی میں ایک چٹان حائل ہوگئی جو کسی طرح ٹوٹ نہ رہی تھی اور اس دس آدمیوں کی ٹولی میں حضرت سلمان فارسی ؓ بھ تھے جو خندق کی تجویز کندہ تھے ، باقی ساتھیوں نے رائے دی کہ خندق میں تھوڑا سا ٹیڑھا پن پیدا کرکے چٹان چھوڑ دیں اور خندق کھود لیں کہ مقصد تو دشمن کو روکنا ہے۔ اتباع نبوی ﷺ کا معیار : حضرت سلمان ؓ نے فرمایا کہ یہ تو درست ہے مگر خندق کھودنے کے لئے جگہ خود محمد رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائی ہے اور اپنے دست مبارک سے لکیر لگائی ہے اس لکیر سے کون ہٹنے کی جرات کرے گا تو سب خاموش ہوگئے ۔ آج کے مسلمان کے لئے اس میں درس عبرت ہے جس کے سامنے سنت کی کوئی قیمت نہیں اور جو جی میں آئے کر گزرتا ہے۔ رواج اور رسومات کو نہیں چھوڑتا۔ خواہ کتنی سنتیں پامال ہوجائیں۔ حضرت سلمان ؓ بات لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور حکم چاہا۔ آپ ﷺ بنفس نفیس تشریف لے گئے ، کدال دست مبارک میں لیا اور ضرب لگائی تو ایک نور چمکا جس سے مدینہ روشن ہوگیا اور چٹان کا ایک حصہ ٹوٹ گیا۔ ارشاد ہوا مجھے اسی روشنی میں ملک فارس کے محلات دکھائے گئے۔ اسی طرح دوسری ضرب پہ روشنی ہوئی تو ارشاد فرمایا کہ مجھے رومیوں کے سرخ محلات دکھائے گئے اور تیسری ضرب پر چٹان ریزہ ریزہ ہوگئی۔ شعلہ نکلا تو ارشاد ہوا کہ مجھے صنعاء یعنی یمن کے پایہ تخت کے محلات دکھائے گئے۔ ہر ضرب پر آپ ﷺ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور ساتھ صحابہ کرام ؓ نے بھی نعرہ تکبیر بلند فرمایا۔ اسلام میں اس کے علاوہ کسی نعرے کی ضرورت بھی نہیں۔ باقی نعرے بازیاں یار لوگوں کی ایجاد ہیں۔ حضور پر نور ﷺ نے خبر دی اور بشارت دی کہ مجھے جبرائیل امین (علیہ السلام) نے خرب دی ہے کہ یہ تمام ممالک میری امت کے ہاتھ پر فتح ہوں گے اس پر منافقین اور یہودی کہنے لگے کہ جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں چھپنے کے لئے خندق کھودی جارہی ہے اور خواب دیکھے جا رہے ہیں فارس ، روم اور یکن کی فتوحات کے مسلمان کا مذاق اڑایا کہ آئندہ چند روز میں شاید تمہارا نشان بھی نہ رہے تو روک وفارس کون فتح کرے گا ؟ ارشاد باری ہوا کہ اے نبی ! ﷺ فرمادیجئے کہ اے اللہ ! تو مالک الملک ہے۔ یہ سب واقعہ تو میں نے بطور شان نزول اور حضور ﷺ کی پیشگوئی کے طور پر نقل کیا ہے ورنہ تو پیچھے بات چل رہی تھی کہ حکومت و ریاست کے لالچ میں انبیاء کو قتل کیا اور اب آپ ﷺ کو ایذا دینے کے درپے ہیں۔ فرمادیجئے کہ اللہ مالک الملک ہے اور جسے چاہے ملک ، سلطنت اور حکومت بخش دے اور جس سے چاہے جس قدر چاہے واپس لے لے۔ دنیا وآخرت میں یا دونوں عالم میں جسے چاہے اپنی مدد اور توفیق سے عزت دے دے اور جسے چاہے بدبختی اور عدم توفیق ۔ نیز عذاب کی وجہ سے ذلت سے دوچار کردے۔ ہر طرح کی بھلائی صرف تیرے قبضہ قدرت میں ہے ، اور تو ہر چیز پہ قادر ہے تو جو چاہے کرسکتا ہے۔ یہاں صرف خیر کا ذکر ہے حالانکہ شر بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے تو عرض ہے کہ جو اللہ کی طرف سے ہوتا ہے سب خیر ہے خواہ ایک قوم کے لئے نقصان کا باعث ہو گمر مجموعہ عالم پر نگاہ کی جائے تو اس میں بہتوں کا بھلا ہوتا ہے جیسا کہ متبنی کا مصرعہ ہے ؎ مصائب قوم عند قوم فوائد اور اصل تو خیر سے وجود مراد ہے اور وجود حقیقی صرف حق تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے جو سراسر خیر ہے رہا ممکنات کا وجود تو وہ ظلی ہے ، واجب کا پرتو ہے ورنہ ممکن کی حقیقت میں شر داخل ہے یعنی عدم۔ اس کے بعض افراد شر میں زیادہ اور بعض کم ہیں۔ بہرحال معدوم الذات کو وجود ظلی وجود حقیقی سے ملا ہوا ہے اسی لئے شر کی نسبت بھی اللہ کی طرف کردی جاتی ہے ورنہ اصل بات تو یہی ہے کہ بیدک الخیر۔ یہاں نبی کریم ﷺ کی پیشگوئیوں اور انقلابات عالم کی ایک تصویر کھینچ دی ہے کہ اے عادوثمود اور قوم نوح وغیرہ کے انجام سے بیخبر لوگو ! ہر شے کو اسباب ظاہری اور شان و شوکت کے تابع نہ دیکھو بلکہ اللہ قادر ہے ، ایک پل میں سب الٹ سکتا ہے۔ پھر عہد فاروقی کا وہ بار آفریں نظارہ ! جب یہ تمام ممالک خادمان نبوی ﷺ کے زیر نگیں ہوئے۔ صد یف ہے ان لوگوں پر ، جو اس فاروق ؓ پر طعن کرتے ہیں جس کے دست مبارکہ پہ اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی پیشگوئیاں پوری فرمائیں تو اس رطح نہ صرف عظمت فار ، قی پر حرف آتا ہے بلکہ دلائل نبوت اور صداقت نبوت بھی مجروح ہوتے ہیں۔ ابعیاذ باللہ۔ حد یہ ہے کہ ایسا کرنے والے صرف اپنے کو مسلمان اور دوسروں کو اس سے محروم سمجھتے ہیں۔ بریں عقل و دانش بباید گریست تو ایسا قادر ہے کہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے یعنی آسمانی طاقتیں اور فلکیات بھی تیرے تابع فرمان ہیں۔ تو جب چاہے رات کے جزاء دن میں اور دن کے رات میں داخل کرکے گھٹا بڑھا دے یعنی زمینی سلطنتوں کی کیا حیثیت ہے ۔ شمس وقمر تیرے حکم سے سرگرداں ہیں اور روحانیت تیرے قبضہ قدرت میں کہ تو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے پیدا کردیتا ہے یعنی بیضہ یا نطفہ سے انسان ، بیج سے درخت ، کافر کے گھر مومن ، آذر کے گھر ابراہیم کو پیدا فرمادیتا ہے۔ یعنی آپ کی قدرت کاملہ تمام عالم پہ محیط ہے ۔ عناصر قوتیں ، حکومتیں ، عالم افلاک اور روحانیت سب تیرے قبضہ قدرت میں ہیں اور تیری حک موت سب پر جاری وساری ہے اور تو جس کو چاہے اتنا بخش دے کہ مخلوق اس کے حساب تک سے سے عاجز آجائے۔ ان آیات کریمہ کو آیت الکرسی کے ساتھ فرض نمازوں کے بعد پڑھنا بہت زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ لا یتخذ المومنون………………واللہ روف بالعباد۔ اس جملہ بحث کے بعد کفار کے ساتھ تعلقات کے بارے ارشاد ہوا کہ مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ موالات یعنی دوستی اور محبت ہرگز نہ کرنی چاہیے ، چہ جائیکہ رشتہ داری بناتے پھریں۔ مومن کو صرف مومن سے دوستی سزاوار ہے۔ کافر کے ساتھ تعلقات کی صورت : کفارکا دوست مومنین کی دوستی سے محروم ہوجائے گا اور کفار کی دوستی بجائے خود بھی تو بری ہے غرض کسی طرح بھی خواہ رشتہ داری کی صورت میں ہو یا دوستی کی شکل میں ، جہاد میں مدد کے لئے ہو یا دینی امور میں اعانت کے لئے۔ کسی طرح بھی جائز نہیں۔ یہ درست نہیں کہ دشمنان صحابہ سے چندہ لے کر مساجد میں پنکھے آویزاں کرے۔ یہ حرام ہے۔ اگر کوئی کافروں سے دوستی رکھے گا تو اللہ سے اس کی دوستی کا کوئی رشتہ نہیں ، نہ کوئی تعلق ہے یعنی کفار کی دوستی جیسے مسلمانوں کی محبت کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی اسی طرح اللہ کی دوستی کے ساتھ یکجا نہیں ہوسکتی۔ ہاں ! اگر کفار کی طرف سے کسی شر کا اندیشہ ہو تو صرف دفع شر کی حد تک نہ کہ عبادات ، معاملات اور امور زندگی میں ان کے تابع ہوجائو۔ یہاں تقیہ کی جڑ کٹ رہی ہے کہ تعلقات کی کئی اقسام ہیں۔ اول موالات ہے یعنی دلی دوستی ، محبت ، رشتہ داری۔ یہ صرف مومنین کے ساتھ مخصوص ہے غیر مسلم سے قطعاً کسی حال میں جائز نہیں۔ دوسرا درجہ مواسات کا ہے بحیثیت انسان ہمدردی وخیر خواہی۔ یہ سوائے اہل حرب کے یعنی جو مسلمانوں سے برسرپیکار ہوں دوسروں سے جائز ہے۔ تیسرا درجہ مدارات کا ہے جس کا معنی خوش خلقی اور دوستانہ برتائو کا ہے۔ یہ تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے جبکہ اس سے ان کے مذہب کو کوئی تقویت نہ پہنچے ، اگر ایسا ہو تو یہ بھی جائز نہیں۔ یہی مفہوم الا ان تتقوا منھم تقۃ۔ کا ہے کہ مدارات جائز ہے مگر بقدر ضرورت ، نہ یہ کہ ان کے ساتھ مل کر حرام کھانے لگو یا گناہ کا ارتکاب کردیا عبادات میں ان کے ساتھ شامل ہوجائو یا مسلمانوں کے راز ان پر افشاء کرو یہ سب سختی کے ساتھ منع ہیں اور یہیں سے تقیہ کی حرمت ثابت ہے کہ تقیہ کرانے والوں نے تو سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کو عقائد ، معاملات ، عبادات اور رشتہ داری تک میں خلفائے ثلاثہ ؓ کا ایسا تابع بنایا کہ سب ان کی اقتداء میں کرتے رہے۔ سیدنا فاروق اعظم ؓ کو بیٹی بیاہ کردے دی اور ایسے مطیع ہوئے جب خلافت ان کو مل گئی تو بھی ان کے اتباع سے سر موانحراف نہ کیا۔ اور یا لوگوں نے کہا کہ یہ سب تقیہ تھا۔ ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے اس کے بعد چوتھا درجہ معاملات کا ہے مثلاً تجارت ، ملازمت ، مزدوری یا صنعت وحرفت۔ یہ سب غیر مسلموں سے اس صورت میں جائز ہیں کہ کسی مسلمان کا اس میں نقصان نہ ہو۔ خود عہد نبوی ﷺ میں صحابہ کرام کا تعامل اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں مسلمانوں کے کفار سے تعلقات اس پہ بہترین نمونہ ہیں۔ گویا یہ طے ہوا کہ دلی دوستی کافر سے ہرگز جائز نہیں اور خوش خلقی یا کاروباری تعلقات اس حد تک جائز ہیں جب تک عام مسلمانوں کا اس میں نقصان نہ ہو۔ ورنہ کافر کی دوستی غضب الٰہی کو دعوت دینا ہے جو بہت سخت ہے اور جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں ڈرارہا ہے اور یہ بھی یادرکھو کہ تمہیں اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے کہ انسان کے تمام امور ، کاروبار ریاست ہوں یا سیاست ، عائلی تعلقات ہوں یا منزلی ، سب آخرت کے لئے اور رضائے باری کے حصول کے لئے ہیں مومن کی ساری زندگی اس ایک مقصد کے گرد گھومتی ہے جبکہ کافر سب سے زیادہ اسی مقصدکو نقصان پہنچانے والا ہے پھر دوستی کیسی ؟ مومن کی دوستی دشمنی اللہ کے لئے ہے جیسا کہ ارشاد ہے من احب للہ وابغض للہ فقد استکمل الایمان۔ کہ جس نے دوستی اور دشمنی صرف اللہ کے لئے وقف کردی اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔ اور پھر تم اللہ سے کچھ پوشیدہ نہیں رکھ سکتے خواہ کسی شے کو دل میں چھپا کے رکھو یا ظاہر کردو۔ اللہ ہر حال میں جانتا ہے بلکہ ارض وسما کی ہر شے سے ہر وقت آگاہ ہے جب ہر شے کا وجود ہی اس کے علم اور اس کی قدرت سے ہے تو پھر اس پر کوئی شے کس طرح پوشیدہ رہ سکتی ہے اور وہ ہر چیز پہ قادر ہے اس کا علم ہمہ گیر اور اس کی قدرت محیط کل ہے تو پھر اس کی نافرمانی اور کافر سے دوستی کس قدر نادانی اور خلاف عقل ہے۔ ایک روز ایسا ہوگا کہ ہر شخص اپنی کی ہوئی بھلائی کو اپنے سامنے موجود پائے گا ، اسی طرح جو برائی کی ہوگی وہ بھی سامنے ہوگی اور وہ تمنا کرے کہ اے کاش ! اس کے اور اس کی برائی کے درمیان ایک لمبی مسافت ہوتی ، یہاں تنبیہ فرمائی کہ دیکھو روز حشر تمہارے نامہ اعمال میں کفار کی محبت نہ نکل آئے جو اس روز تم پسند نہ کرو اور جان چھڑانا چاہو۔ حدیث شریف میں ہے کہ تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہوگی ۔ روز حشر کو یادرکھو اور اللہ کے عذابوں سے ڈرتے رہو کہ اللہ بندوں پہ بہت مہربان ہے۔ تمہیں تباہی اور بربادی کے اسباب سے قبل از وقت مطلع کررہا ہے کہ تم اپنے آپ کو اس کے عذاب سے بچا سکو اور اس کی مرضیات کو پانے میں کوشاں رہو۔
Top