Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 21
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ۙ وَّ یَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ جو يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں بِاٰيٰتِ : آیتوں کا اللّٰهِ : اللہ وَيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے ہیں النَّبِيّٖنَ : نبیوں کو بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق وَّيَقْتُلُوْنَ : اور قتل کرتے ہیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْمُرُوْنَ : حکم کرتے ہیں بِالْقِسْطِ : انصاف کا مِنَ النَّاسِ : لوگوں سے فَبَشِّرْھُمْ : سو انہیں خوشخبری دیں بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
یقینا جو لوگ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ان لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو لوگوں میں انصاف (کرنے) کا حکم دیتے ہیں سو ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادیں
آیات 21- 30 اسرارو معارف ان الذین یکفرون………………لا یظلمون۔ بعض طبائع مسخ ہوجاتے ہیں اور ایسے برباد ہوتے ہیں کہ نسلوں تک میں ان کا اثر پایا جاتا ہے فرمایا یہ معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ آج کے اہل کتاب صرف آپ ﷺ کی نبوت کا ہی انکار نہیں کر رہے بلکہ جن کے یہ متبع ہیں۔ وہ تو انبیاء (علیہم السلام) کو ظلماً قتل بھی کرتے تھے بلکہ جن لوگوں نے انصاف کا حکم دیا یا سچی اور کھری بات کہی تو انہیں بھی قتل کردیا۔ تو اے نبی ! ﷺ ان کو دردناک عذاب کی بشارت یعنی اطلاع دے دی۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ نبی اسرائیل یعنی یہودنے دن کے اول حصہ میں محض اقتدار اور حکومت کے لالچ میں چالیس انبیاء کو قتل کردیا حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ یہ قتل ناحق ہے اسی لئے بغیر حق ارشاد ہوا ۔ ورنہ انبیاء کا قتل تو ناحق ہی تھا یہاں بغیر حق کہنے سے مراد کہ خود ان کے نزدیک بھی ناحق تھا اور پھر اس قتل ناحق پر ملامت کرنے اور حق کا حکم کرنے کے لئے ان کے متبعین میں سے ایک سو بیس آدمی کھڑے ہوگئے۔ اسی روز پچھلے پہر ان کو بھی قتل کردیا۔ تو یہ یہود چونکہ انہی کے پیروکار اور ان کے افعال پر راضی ہیں۔ تو ان کا مزاج ہی دیکھ لیں۔ یہ حق کو حق جان کر بھی قبول نہ کریں گے۔ ایسے بدکاروں کو دردناک عذاب کی خبر کردیں۔ بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے اعمال رائیگاں ہوگئے۔ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوں گے اور آخرت میں بھی عذاب کا شکار اور کوئی ان کی مدد کرنے والا نہ ہوگا۔ آپ ﷺ دیکھیں تو کیسی تعجب خیزبات ہے کہ جن لوگوں کو توراۃ کا تھوڑا سا علم دے دیا گیا کہ پوری توراۃ تو نہ ان کے پاس تھی نہ ساری پہ ان کا ایمان تھا۔ جب ان کو اللہ کی کتاب کے فیصلہ کی دعوت دی جاتی ہے کہ آپ کی ذات اور بعثت کے بارے تو اس توراۃ میں بھی موجود تھا جو ان کے پاس تھی اور یا پھر قرآن کریم کی ارشاد کے مطابق دعوت دی جاتی ہے کہ اس کے مطابق فیصلہ کرلیں تو ان میں ایک گروہ کترا کے نکل جاتا ہے اور کتاب اللہ کے فیصلے سے منہ موڑ لیتا ہے یعنی وہی آبائی مزاج ہے کہ ریاست کے لالچ میں انبیاء (علیہم السلام) کو ظلماً شہید کیا۔ یہ بدکار بھی بجائے اتباع کے حضور پرنور ﷺ کے قتل کے درپے رہے۔ مسلمانوں کو ان پر اعتبار نہ کرنا چاہیے۔ اللہ اس قوم کو ہدایت نصیب فرمائے اور دین کے رہزنوں سے محفوظ رکھے ! آمین۔ فرمایا کہ ذرا غور کرو ، اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ان سب کو اس روز اکٹھا کریں گے جس کے وقوع میں ذرا برابر شبہ نہیں اور پھر ہر شخص کو اس کے اپنے عمل کا پورا پورا بدلہ دیں گے۔ نہ نیکی میں سے کوئی شے گھٹائی جائے گی ، نہ بدی میں کوئی اضافہ کیا جائے گا اور کسی کی حق تلفی نہ کی جائے گی جیسے کہ انہوں نے فرض کررکھا ہے۔ قل اللھم مالک الملک…………بغیر حساب۔ بدرواحد میں تباہی سے دو چار ہونے کے بعد مشرکین واہل کتاب سب میں ایک ہیجان پیدا ہوگیا اور حسد کی آگ میں جلنے لگے کہ ان کی نظروں کے سامنے ایک اسلامی ریاست تشکیل پارہی تھی۔ سب نے سازش تیار کی اور فیصلہ ہوا کہ یہود نصاریٰ اور مشرکین عرب سب مل کر یکبارگی مدینہ منورہ پر حملہ کردیں اور اسلام اور مسلمانوں کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔ اس غرض سے ایک بہت بڑا لشکر تیار ہو کر مدینہ منورہ کی طرف بڑھا۔ اس جنگ کو غزوہ احزاب یا غزوہ خندق کہا جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورہ سے شہر کے گرد خندق کھودنے کا حکم دیا۔ تقریباً چالیس ہاتھ جگہ دس دس صحابہ ؓ میں بانٹی گئی جس کی چوڑائی اور گہرائی بھی اسی قدر تھی کہ کوئی سواریا پیادہ اسے عبور نہ کرسکے۔ وقت بہت کم تھا مگر جاں نثار صحابہ ؓ اس طرح کام میں جتے کہ کھانے اور رفع حاجت تک کے لئے وقت نکالنا مشکل ہورہا تھا۔ لوگوں نے بھوک کی وجہ سے پیٹوں پر پتھر باندھے۔ خود سرور عالم ﷺ نے شکم مبارک پر دو پتھر باندھے تھے اور کام مطلوبہ چند دنوں کے اندر مکمل ہوگیا۔ اثنائے کار ایک جگہ کھدائی میں ایک چٹان حائل ہوگئی جو کسی طرح ٹوٹ نہ رہی تھی اور اس دس آدمیوں کی ٹولی میں حضرت سلمان فارسی ؓ بھ تھے جو خندق کی تجویز کندہ تھے ، باقی ساتھیوں نے رائے دی کہ خندق میں تھوڑا سا ٹیڑھا پن پیدا کرکے چٹان چھوڑ دیں اور خندق کھود لیں کہ مقصد تو دشمن کو روکنا ہے۔ اتباع نبوی ﷺ کا معیار : حضرت سلمان ؓ نے فرمایا کہ یہ تو درست ہے مگر خندق کھودنے کے لئے جگہ خود محمد رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائی ہے اور اپنے دست مبارک سے لکیر لگائی ہے اس لکیر سے کون ہٹنے کی جرات کرے گا تو سب خاموش ہوگئے ۔ آج کے مسلمان کے لئے اس میں درس عبرت ہے جس کے سامنے سنت کی کوئی قیمت نہیں اور جو جی میں آئے کر گزرتا ہے۔ رواج اور رسومات کو نہیں چھوڑتا۔ خواہ کتنی سنتیں پامال ہوجائیں۔ حضرت سلمان ؓ بات لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور حکم چاہا۔ آپ ﷺ بنفس نفیس تشریف لے گئے ، کدال دست مبارک میں لیا اور ضرب لگائی تو ایک نور چمکا جس سے مدینہ روشن ہوگیا اور چٹان کا ایک حصہ ٹوٹ گیا۔ ارشاد ہوا مجھے اسی روشنی میں ملک فارس کے محلات دکھائے گئے۔ اسی طرح دوسری ضرب پہ روشنی ہوئی تو ارشاد فرمایا کہ مجھے رومیوں کے سرخ محلات دکھائے گئے اور تیسری ضرب پر چٹان ریزہ ریزہ ہوگئی۔ شعلہ نکلا تو ارشاد ہوا کہ مجھے صنعاء یعنی یمن کے پایہ تخت کے محلات دکھائے گئے۔ ہر ضرب پر آپ ﷺ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور ساتھ صحابہ کرام ؓ نے بھی نعرہ تکبیر بلند فرمایا۔ اسلام میں اس کے علاوہ کسی نعرے کی ضرورت بھی نہیں۔ باقی نعرے بازیاں یار لوگوں کی ایجاد ہیں۔ حضور پر نور ﷺ نے خبر دی اور بشارت دی کہ مجھے جبرائیل امین (علیہ السلام) نے خرب دی ہے کہ یہ تمام ممالک میری امت کے ہاتھ پر فتح ہوں گے اس پر منافقین اور یہودی کہنے لگے کہ جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں چھپنے کے لئے خندق کھودی جارہی ہے اور خواب دیکھے جا رہے ہیں فارس ، روم اور یکن کی فتوحات کے مسلمان کا مذاق اڑایا کہ آئندہ چند روز میں شاید تمہارا نشان بھی نہ رہے تو روک وفارس کون فتح کرے گا ؟ ارشاد باری ہوا کہ اے نبی ! ﷺ فرمادیجئے کہ اے اللہ ! تو مالک الملک ہے۔ یہ سب واقعہ تو میں نے بطور شان نزول اور حضور ﷺ کی پیشگوئی کے طور پر نقل کیا ہے ورنہ تو پیچھے بات چل رہی تھی کہ حکومت و ریاست کے لالچ میں انبیاء کو قتل کیا اور اب آپ ﷺ کو ایذا دینے کے درپے ہیں۔ فرمادیجئے کہ اللہ مالک الملک ہے اور جسے چاہے ملک ، سلطنت اور حکومت بخش دے اور جس سے چاہے جس قدر چاہے واپس لے لے۔ دنیا وآخرت میں یا دونوں عالم میں جسے چاہے اپنی مدد اور توفیق سے عزت دے دے اور جسے چاہے بدبختی اور عدم توفیق ۔ نیز عذاب کی وجہ سے ذلت سے دوچار کردے۔ ہر طرح کی بھلائی صرف تیرے قبضہ قدرت میں ہے ، اور تو ہر چیز پہ قادر ہے تو جو چاہے کرسکتا ہے۔ یہاں صرف خیر کا ذکر ہے حالانکہ شر بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے تو عرض ہے کہ جو اللہ کی طرف سے ہوتا ہے سب خیر ہے خواہ ایک قوم کے لئے نقصان کا باعث ہو گمر مجموعہ عالم پر نگاہ کی جائے تو اس میں بہتوں کا بھلا ہوتا ہے جیسا کہ متبنی کا مصرعہ ہے ؎ مصائب قوم عند قوم فوائد اور اصل تو خیر سے وجود مراد ہے اور وجود حقیقی صرف حق تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے جو سراسر خیر ہے رہا ممکنات کا وجود تو وہ ظلی ہے ، واجب کا پرتو ہے ورنہ ممکن کی حقیقت میں شر داخل ہے یعنی عدم۔ اس کے بعض افراد شر میں زیادہ اور بعض کم ہیں۔ بہرحال معدوم الذات کو وجود ظلی وجود حقیقی سے ملا ہوا ہے اسی لئے شر کی نسبت بھی اللہ کی طرف کردی جاتی ہے ورنہ اصل بات تو یہی ہے کہ بیدک الخیر۔ یہاں نبی کریم ﷺ کی پیشگوئیوں اور انقلابات عالم کی ایک تصویر کھینچ دی ہے کہ اے عادوثمود اور قوم نوح وغیرہ کے انجام سے بیخبر لوگو ! ہر شے کو اسباب ظاہری اور شان و شوکت کے تابع نہ دیکھو بلکہ اللہ قادر ہے ، ایک پل میں سب الٹ سکتا ہے۔ پھر عہد فاروقی کا وہ بار آفریں نظارہ ! جب یہ تمام ممالک خادمان نبوی ﷺ کے زیر نگیں ہوئے۔ صد یف ہے ان لوگوں پر ، جو اس فاروق ؓ پر طعن کرتے ہیں جس کے دست مبارکہ پہ اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی پیشگوئیاں پوری فرمائیں تو اس رطح نہ صرف عظمت فار ، قی پر حرف آتا ہے بلکہ دلائل نبوت اور صداقت نبوت بھی مجروح ہوتے ہیں۔ ابعیاذ باللہ۔ حد یہ ہے کہ ایسا کرنے والے صرف اپنے کو مسلمان اور دوسروں کو اس سے محروم سمجھتے ہیں۔ بریں عقل و دانش بباید گریست تو ایسا قادر ہے کہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے یعنی آسمانی طاقتیں اور فلکیات بھی تیرے تابع فرمان ہیں۔ تو جب چاہے رات کے جزاء دن میں اور دن کے رات میں داخل کرکے گھٹا بڑھا دے یعنی زمینی سلطنتوں کی کیا حیثیت ہے ۔ شمس وقمر تیرے حکم سے سرگرداں ہیں اور روحانیت تیرے قبضہ قدرت میں کہ تو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے پیدا کردیتا ہے یعنی بیضہ یا نطفہ سے انسان ، بیج سے درخت ، کافر کے گھر مومن ، آذر کے گھر ابراہیم کو پیدا فرمادیتا ہے۔ یعنی آپ کی قدرت کاملہ تمام عالم پہ محیط ہے ۔ عناصر قوتیں ، حکومتیں ، عالم افلاک اور روحانیت سب تیرے قبضہ قدرت میں ہیں اور تیری حک موت سب پر جاری وساری ہے اور تو جس کو چاہے اتنا بخش دے کہ مخلوق اس کے حساب تک سے سے عاجز آجائے۔ ان آیات کریمہ کو آیت الکرسی کے ساتھ فرض نمازوں کے بعد پڑھنا بہت زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ لا یتخذ المومنون………………واللہ روف بالعباد۔ اس جملہ بحث کے بعد کفار کے ساتھ تعلقات کے بارے ارشاد ہوا کہ مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ موالات یعنی دوستی اور محبت ہرگز نہ کرنی چاہیے ، چہ جائیکہ رشتہ داری بناتے پھریں۔ مومن کو صرف مومن سے دوستی سزاوار ہے۔ کافر کے ساتھ تعلقات کی صورت : کفارکا دوست مومنین کی دوستی سے محروم ہوجائے گا اور کفار کی دوستی بجائے خود بھی تو بری ہے غرض کسی طرح بھی خواہ رشتہ داری کی صورت میں ہو یا دوستی کی شکل میں ، جہاد میں مدد کے لئے ہو یا دینی امور میں اعانت کے لئے۔ کسی طرح بھی جائز نہیں۔ یہ درست نہیں کہ دشمنان صحابہ سے چندہ لے کر مساجد میں پنکھے آویزاں کرے۔ یہ حرام ہے۔ اگر کوئی کافروں سے دوستی رکھے گا تو اللہ سے اس کی دوستی کا کوئی رشتہ نہیں ، نہ کوئی تعلق ہے یعنی کفار کی دوستی جیسے مسلمانوں کی محبت کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی اسی طرح اللہ کی دوستی کے ساتھ یکجا نہیں ہوسکتی۔ ہاں ! اگر کفار کی طرف سے کسی شر کا اندیشہ ہو تو صرف دفع شر کی حد تک نہ کہ عبادات ، معاملات اور امور زندگی میں ان کے تابع ہوجائو۔ یہاں تقیہ کی جڑ کٹ رہی ہے کہ تعلقات کی کئی اقسام ہیں۔ اول موالات ہے یعنی دلی دوستی ، محبت ، رشتہ داری۔ یہ صرف مومنین کے ساتھ مخصوص ہے غیر مسلم سے قطعاً کسی حال میں جائز نہیں۔ دوسرا درجہ مواسات کا ہے بحیثیت انسان ہمدردی وخیر خواہی۔ یہ سوائے اہل حرب کے یعنی جو مسلمانوں سے برسرپیکار ہوں دوسروں سے جائز ہے۔ تیسرا درجہ مدارات کا ہے جس کا معنی خوش خلقی اور دوستانہ برتائو کا ہے۔ یہ تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے جبکہ اس سے ان کے مذہب کو کوئی تقویت نہ پہنچے ، اگر ایسا ہو تو یہ بھی جائز نہیں۔ یہی مفہوم الا ان تتقوا منھم تقۃ۔ کا ہے کہ مدارات جائز ہے مگر بقدر ضرورت ، نہ یہ کہ ان کے ساتھ مل کر حرام کھانے لگو یا گناہ کا ارتکاب کردیا عبادات میں ان کے ساتھ شامل ہوجائو یا مسلمانوں کے راز ان پر افشاء کرو یہ سب سختی کے ساتھ منع ہیں اور یہیں سے تقیہ کی حرمت ثابت ہے کہ تقیہ کرانے والوں نے تو سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کو عقائد ، معاملات ، عبادات اور رشتہ داری تک میں خلفائے ثلاثہ ؓ کا ایسا تابع بنایا کہ سب ان کی اقتداء میں کرتے رہے۔ سیدنا فاروق اعظم ؓ کو بیٹی بیاہ کردے دی اور ایسے مطیع ہوئے جب خلافت ان کو مل گئی تو بھی ان کے اتباع سے سر موانحراف نہ کیا۔ اور یا لوگوں نے کہا کہ یہ سب تقیہ تھا۔ ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے اس کے بعد چوتھا درجہ معاملات کا ہے مثلاً تجارت ، ملازمت ، مزدوری یا صنعت وحرفت۔ یہ سب غیر مسلموں سے اس صورت میں جائز ہیں کہ کسی مسلمان کا اس میں نقصان نہ ہو۔ خود عہد نبوی ﷺ میں صحابہ کرام کا تعامل اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں مسلمانوں کے کفار سے تعلقات اس پہ بہترین نمونہ ہیں۔ گویا یہ طے ہوا کہ دلی دوستی کافر سے ہرگز جائز نہیں اور خوش خلقی یا کاروباری تعلقات اس حد تک جائز ہیں جب تک عام مسلمانوں کا اس میں نقصان نہ ہو۔ ورنہ کافر کی دوستی غضب الٰہی کو دعوت دینا ہے جو بہت سخت ہے اور جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں ڈرارہا ہے اور یہ بھی یادرکھو کہ تمہیں اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے کہ انسان کے تمام امور ، کاروبار ریاست ہوں یا سیاست ، عائلی تعلقات ہوں یا منزلی ، سب آخرت کے لئے اور رضائے باری کے حصول کے لئے ہیں مومن کی ساری زندگی اس ایک مقصد کے گرد گھومتی ہے جبکہ کافر سب سے زیادہ اسی مقصدکو نقصان پہنچانے والا ہے پھر دوستی کیسی ؟ مومن کی دوستی دشمنی اللہ کے لئے ہے جیسا کہ ارشاد ہے من احب للہ وابغض للہ فقد استکمل الایمان۔ کہ جس نے دوستی اور دشمنی صرف اللہ کے لئے وقف کردی اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔ اور پھر تم اللہ سے کچھ پوشیدہ نہیں رکھ سکتے خواہ کسی شے کو دل میں چھپا کے رکھو یا ظاہر کردو۔ اللہ ہر حال میں جانتا ہے بلکہ ارض وسما کی ہر شے سے ہر وقت آگاہ ہے جب ہر شے کا وجود ہی اس کے علم اور اس کی قدرت سے ہے تو پھر اس پر کوئی شے کس طرح پوشیدہ رہ سکتی ہے اور وہ ہر چیز پہ قادر ہے اس کا علم ہمہ گیر اور اس کی قدرت محیط کل ہے تو پھر اس کی نافرمانی اور کافر سے دوستی کس قدر نادانی اور خلاف عقل ہے۔ ایک روز ایسا ہوگا کہ ہر شخص اپنی کی ہوئی بھلائی کو اپنے سامنے موجود پائے گا ، اسی طرح جو برائی کی ہوگی وہ بھی سامنے ہوگی اور وہ تمنا کرے کہ اے کاش ! اس کے اور اس کی برائی کے درمیان ایک لمبی مسافت ہوتی ، یہاں تنبیہ فرمائی کہ دیکھو روز حشر تمہارے نامہ اعمال میں کفار کی محبت نہ نکل آئے جو اس روز تم پسند نہ کرو اور جان چھڑانا چاہو۔ حدیث شریف میں ہے کہ تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہوگی ۔ روز حشر کو یادرکھو اور اللہ کے عذابوں سے ڈرتے رہو کہ اللہ بندوں پہ بہت مہربان ہے۔ تمہیں تباہی اور بربادی کے اسباب سے قبل از وقت مطلع کررہا ہے کہ تم اپنے آپ کو اس کے عذاب سے بچا سکو اور اس کی مرضیات کو پانے میں کوشاں رہو۔
Top