Asrar-ut-Tanzil - An-Nisaa : 51
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا هٰۤؤُلَآءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يُؤْمِنُوْنَ : وہ مانتے ہیں بِالْجِبْتِ : بت (جمع) وَالطَّاغُوْتِ : اور سرکش (شیطان) وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ اَهْدٰى : راہ راست پر مِنَ : سے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) سَبِيْلًا : راہ
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب میں سے ایک (بڑا) حصہ دیا گیا کہ بتوں اور شیطان کو مانتے ہیں اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں کی نسبت سیدھے راستے پر ہیں
آیات 51 تا 52 ۔ الم تر الی الذین ۔۔۔۔ نصیرا۔ آپ ایسے لوگوں کو دیکھئے جنہیں کتاب الہی نصیب ہوئی کہ احقاق حق کی سب سے بڑی دلیل ہے اور اتنی بڑی نعمت ہے کہ انسان اس کی عظمت کا انداز تک نہیں کرسکتا جس کی خاطر انبیاء مبعوث کیے جاتے ہیں کہ کوئی غیر نبی کلام الہی کو وصول کرنے کی تاب ہی نہیں رکھتا جس کا کمال یہ ہے کہ وہ شخص جو اللہ تعالیٰ سے حاصل کرتا ہے معصوم عن الخطا ہوتا ہے کہ کلام الہی کے حصول کیلئے یہ تقدس شرط ہے پھر جو کوئی اس پر ایمان لاتا ہے فوراً کفر کی ساری ظلمت دور ہو کر اس کا سینہ منور ہوجاتا ہے اور قدم قدم پر اسے نہ صرف راہنمائی ملتی ہے بلکہ تائید باری بھی برابر حاصل ہوتی ہے مگر انانیت اور خود ستائی اتنا بڑا جرم ہے کہ یہ لوگ بتوں اور شیاطین کو اپنا معبود مان رہے ہیں اور نگاہ کی کجی ملاحظہ ہو کہ کہتے ہیں کفار مسلمانوں کی نسبت حق پر اور راہ راست پر ہیں یہاں مفسرین نے جو واقعہ نقل فرمایا ہے وہ بھی عبرت کا نمونہ ہے کہ فرماتے ہیں حی بن اخطب اور کعب بن اشرف وغیرہ سرداران یہود جنگ احد کے بعد مشرکین مکہ کے پاس آئے اور مسلمانوں کے خلاف آپس میں معاہدہ کرنا چاہا جس پر اہل مکہ نے کہا کہ یہود ایک دھوکہ دینے والی قوم ہے اس لیے اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہاں اگر ہمارے بتوں کے سامنے سجدہ کرکے وعدہ کرو تو البتہ قابل غور ہے یہود نے ایسا کر دکھایا پھر کعب بن اشرف نے جو بہت بڑا عالم بھی تھا تجویز پیش کی کہ تیس آدمی تمہارے ہوں اور تیس آدمی ہمارے اور بیت اللہ شریف کے سامنے مل کر عہد کریں کہ ہم مسلمانوں کے خلاف متحد ہو کر لڑیں گے قریش نے تجویز تو پسند کی مگر ابو سفیان نے کہا ایک بات ہے کہ تم کتاب کے عالم ہو اور ہم لوگ دین کے معاملہ میں علم نہیں رکھتے اس لیے پہلے یہ بتاؤ کہ محمد ﷺ حق پر ہیں یا ہم مراد یہ تھی کہ اگر وہ حق پر ہیں تو پھر ان کے خلاف معاہدہ کیسا ہم قبول کریں یا نہ حق کے خلاف لڑنا تو معقول بات نہیں کعب نے پوچھا پنا دین بیان کرو انہوں نے وہ رسومات گنوا دیں جو مشرکین عرب میں دین کے نام پہ رائج تھیں اور حضور اکرم ﷺ کے بارے کہا کہ وہ ان کو چھوڑ چکے اور ایک نیا دین پیش کر رہے ہیں اس پر کعب نے کہا کہ تم حق پر ہو اور محمد ﷺ گمراہ ہوچکے ہیں۔ حالانکہ کعب بہت بڑا عالم اور حضور ﷺ کی بعثت تک کا علم رکھنے والا پھر عقاید میں توحید و شرک ، دین اور رسومات کے فرق سے آگاہ تھا مگر اپنے آپ کو بڑا منوانے کے لیے کس قدر اندھا ہوگیا کہ باطل کو حق اور حق کو باطل قرار دے رہا ہے یہ دل و دماغ کی کجی اس لیے ہے کہ اللہ نے ایسے متکبر لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جو رحمت سے دوری اور محرومی ہے لہذا اس کے نتیجہ میں یہ لوگ گمراہ ہوئے جس کی بنیاد یہ تھی کہ اپنے آپ کو بڑا منوانے کی فکر و آرزو رکھتے تھے اور یاد رکھیں جس پر اللہ کی طرف سے لعنت ہو اس کو کوئی بھی مددگار نصیب نہیں ہوتا۔ اور کوئی مدد کرے گا بھی کیسے کہ جب رحمت باری ہی سے محروم ہوا تو مدد نصیب ہونا بھی تو اللہ ہی کی رحمت سے ہے اسباب تو محض پردہ ہوتے ہیں پس پردہ تو مسبب الاسباب ہی کی قدرت کاملہ کار فرما ہوتی ہے اس محرومی کے بھی مختلف درجے ہیں جس کا آخری درجہ تو کفر ہے مگر ابتدا کبائر سے یعنی بڑے بڑے گناہوں سے ہوتی ہے مثلاً ان عورتوں پر لعنت کی گئی جو مردوں کا لباس پہننا یا شکل بنانا شروع کردیتی ہیں ایسے ہی ان مردوں پر بھی جو عورتوں کی طرح نظر آنا چاہتے ہیں۔ بلکہ ایک روایت میں ایک عورت کے مردانہ جوتے پہننے پر بھی لعنت کی وعید ملتی ہے بھویں چننے والی عورتوں پر نظر بد ڈالنے الوں پر اور ایسی عورتوں پر جو لوگوں کی نظروں کی خواہش رکھتی ہوں یعنی بناؤ سنگھار کرکے بےپردہ پھرنے والی ہوں سود لینے اور دینے والے پر قوم لوط کا عمل کرنیوالے پر کتاب اللہ میں زیادتی کرنیوالے پر زبردستی اقتدار حاصل کرکے شرفا کو رسوا کرنے اور بدکاروں کو عزت دینے والے پر یا حرام کو حلال جاننے والے پر غرض حدیث شریف میں اس طرح سے بہت سے اعمال پر لعنت کی وعید ہے مراد ہے رحمت الہی سے محرومی جس سے فہم و نظر میں کجی پیدا ہوتی ہے اور اگر توبہ نصیب نہ ہو تو ایمان سلب ہوجانے کا خطرہ ہے جو ہمیشہ کی رسوائی اور سخت عذاب میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے اے اللہ تو ہمیں اس آفت سے محفوظ رکھ ۔ آمین ۔۔ ام لھم نصیب۔ کبر ایک ایسی مصیبت ہے اور اتنی بڑی خرابی ہے اگر اسے تمام برائیوں کی اصل جڑ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا اللہ کریم کی نافرمانی اور اپنی خواہش کی پیروی بھی اسی کا نتیجہ ہے جو کفر و شرک میں مبتلا کرنے کا باعث بنتی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ آدمی اپنی پارسائی کا راگ الاپنے لگتا ہے دوسروں تک نعمت کو پہنچنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے حتی کہ اگر ایسوں کے پاس سلطنت بھی ہو تو دوسروں کو ایک تنکا تک دینا گوارا نہیں کرتے جس کی مثال علمائے یہود ہیں کہ اگر ان کا بس چلے تو حضور اکرم ﷺ کو اور مسلمانوں کو پانی کا گھونٹ بھی نہ دیں بلکہ اس سے بڑھ کر ایسا آدمی حسد میں مبتلا ہوجاتا ہے حسد کا معنی کسی زوال نعمت کی تمنا کرنے کا ہے اپنے پاس سے کچھ دینا تو دور کی بات ہے جو انعام اللہ کریم نے عطا فرمائے ہیں دینی ہوں یا دنیوی یہ ان کے بھی زوال کے متمنی ہیں۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی اولاد ابراہیم (علیہ السلام) میں دینی برکات کتاب و حکمت اور نبوت و رسالت کی صورت میں رہی ہیں جس پر یہود بھی ایمان لاتے رہے ہیں اور اب بھی ایماندار ہونے کے مدعی ہیں اور حکومت و ریاست کی شکل میں بھی یہ دولت آل ابراہیم میں رہی ہے حتی کہ بعض حضرات نبوت و حکومت دونوں طرح کے انعامات سے نوازے گئے اب اگر یہ دونوں انعامات آپ ﷺ کے پاس جمع ہوگئے ہیں تو انہیں انکار نہ کرنا چاہے مگر یہ کوئی ایسی تعجب انگیز بات بھی نہیں کہ انبیاء سابقہ کے ساتھ ان کے اجداد کا وطیرہ بھی تو یہی رہا ہے کہ کچھ ایمان لاتے تھے اور بعض انکار کردیتے تھے اور اپنے آپ کو دوزخ کا سزاوار بنا لیتے تھے کہ کفر کی سزا دوزخ ہی بس ہے جو سخت جلانے والی ہے زندگی میں بھی اس کی تپش چین حرام کیے رکھتی ہے اور بعد موت تو رہنا ہی اسی میں ہوگا اور آپ ﷺ کی نبوت و رسالت سے ان کا انکار تو محض حسد پر مبنی ہے جس کا کسی صورت میں کوئی جواز نہیں اور حسد بجائے خود ایک عذاب ہے اس کی مثال آگ کی سی ہے جو ہمہ وقت حسد کرنے والے کو جلاتی رہتی ہے اور نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم پر حسد کرکے تو یہ کفر میں مبتلا ہوئے حسد یوں بھی حرام ہے اور مفضی الی الکفر (یعنی کفر کی طرف لے جانے والا) کہ اللہ جو نعمت چاہے جس کو چاہے عطا کرے ہاں کسی کمال پر رشک کرنا درست ہے یعنی جائز ذرائع سے اس کمال کو پانے کی کوشش بغیر اس خواہش کے کہ دوسرے شخص سے اس کے زوال کی تمنا ہو اور کافر تو عنقریب ایسی آگ میں داخل ہوں گے جو واقعی جسموں کو جلا دے گی مگر جل بھن کر ختم نہ ہوں گے کہ جیسے جیسے جسم جلتا چلا جائے گا قدرت باری سے نیا پیدا ہوتا جائے گا تاکہ مسلسل عذاب میں مبتلا رہیں اور اس کی شدت کو زیادہ سے زیادہ محسوس کرتے رہیں نیا پیدا ہونے والا گوشت یا جلد زیادہ حساس ہوتی ہے اللہ بہت بڑی طاقت والا اور ہر چیز پر غالب ہے یہ اس کی حکمت ہے کہ فرصت عمل دی مگر انسان نادانی کے باعث اللہ کے مقابلے میں اپنی بڑائی ثابت کرنے لگ گیا جس کے یہ سب نتائج بد سامنے آنے والے ہیں اور جو لوگ کبر سے بچے اپنے عجز اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اقرار کیا یعنی ایمان لائے اور اللہ کی اطاعت اختیار کی اطاعت ہی ایمان کی سب سے بڑی دلیل ہے اگر عمل ہی دعوے کے خلاف ہو تو اس پر کیا اعتبار۔ ایسے لوگ بہت جلدی ایک اعلی ترین زندگی کو پائیں گے جو انسان کی منزل ہے اور بہترین جگہ بہترین نعمتوں کے ساتھ ہے جس کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہاں کی نعمتوں کو زوال ہوگا اور نہ داخل ہونے والے انسان کو کبھی وہاں سے نکالے جانے کا خوف جو اس منزل پہ پہنچا وہاں ہمیشہ رہے گا اور ہر طرح کی نعمتیں روحانی ، مالی ، بدنی نصیب ہوں گی سدا بہار رہیں گی خزاں کا نام نہ ہوگا صحت بیماری سے آزاد ہوگی اور حیات کو موت کا کھٹکا نہ ہوگا وہاں عورتیں بھی ہر طرح کے چھوٹے بڑے عیب سے پاک ہوں گی نہ بدنوں میں نجاست ہوگی نہ دلوں میں نفرت اور نہ صورت میں کمی یعنی ہر طرح کی راحت ہوگی فکر نام کی شئے کا وہاں گذر نہیں۔
Top