Asrar-ut-Tanzil - An-Nisaa : 77
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ قِیْلَ لَهُمْ كُفُّوْۤا اَیْدِیَكُمْ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْیَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَةً١ۚ وَ قَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ١ۚ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍ١ؕ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ١ۚ وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى١۫ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قِيْلَ : کہا گیا لَھُمْ : ان کو كُفُّوْٓا : روک لو اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ وَاَقِيْمُوا : اور قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتُوا : اور ادا کرو الزَّكٰوةَ : زکوۃ فَلَمَّا : پھر جب كُتِبَ عَلَيْهِمُ : ان پر فرض ہوا الْقِتَالُ : لڑنا (جہاد) اِذَا : ناگہاں (تو) فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْھُمْ : ان میں سے يَخْشَوْنَ : ڈرتے ہیں النَّاسَ : لوگ كَخَشْيَةِ : جیسے ڈر اللّٰهِ : اللہ اَوْ : یا اَشَدَّ : زیادہ خَشْيَةً : ڈر وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب لِمَ كَتَبْتَ : تونے کیوں لکھا عَلَيْنَا : ہم پر الْقِتَالَ : لڑنا (جہاد) لَوْ : کیوں لَآ اَخَّرْتَنَآ : نہ ہمیں ڈھیل دی اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : مدت قَرِيْبٍ : تھوڑی قُلْ : کہ دیں مَتَاعُ : فائدہ الدُّنْيَا : دنیا قَلِيْلٌ : تھوڑا وَالْاٰخِرَةُ : اور آخرت خَيْرٌ : بہتر لِّمَنِ اتَّقٰى : پرہیزگار کے لیے وَ : اور لَا تُظْلَمُوْنَ : نہ تم پر ظلم ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
(اے مخاطب ! ) کیا تو نے ان لوگوں نہیں دیکھا جن کو (پہلے) حکم دیا گیا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو پھر جب ان پر جہاد (قتال) فرض کردیا گیا تو ان میں کچھ (لوگ) لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگے جیسا اللہ سے ڈرنا چاہیے یا اس سے بھی بڑھ کر ڈرنا اور کہنے لگے اے ہمارے پروردگار ! آپ نے ہم پر جہاد (جلدی) کیوں فرض کردیا ہمیں کچھ عرصہ تک مہلت کیوں نہ دی ؟ آپ فرما دیجئے کہ دنیا کا فائدہ (بہت) تھوڑا ہے اور جو پرہیزگار ہو اس کے لئے آخرت بہت بہتر ہے اور تم پر دھاگے برابر بھی زیادتی نہ کی جائے گی
اسرار و معارف آیات نمبر 77 تا 78 ۔ اے مخاطب ذرا ان لوگوں کو دیکھ جن کو روکنا مشکل ہورہا تھا اور یہ حکم دیا جاتا تھا کہ نماز روزہ کی پابندی کرو زکوۃ دو یعنی ارکان اسلام پر عمل کرو اسلام کو خود اپنے اوپر نافذ کرو تب یہ جہاد اور قتال کے لیے بیقرار تھے کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے اللہ کا حکم ہو رسول اللہ ﷺ لائے ہوں اور لوگ مانیں نہیں وہ خواہ اہل مکہ ہوں یا کوئی بھی اور ہم ان سے نزور شمشیر منوائیں گے تو ارشاد ہوتا تھا ٹھہرجاؤ ذرا اپنے ہاتھوں کو روک کر رکھو یہ در اصل منافقین کا کردار تھا جب مسلمان ہجرت کرکے آئے تو جو منافقین ان کی صفوں میں شامل ہوگئے یہ ان کی باتیں ہیں جو بعض حضرات نے مومنین کی طرف منسوب کرکے بڑا معذرت خواہانہ سا ترجمہ کیا ہے مگر اکثر مفسرین اس طرف نہیں گئے کہ فوراً بعد منافقین ہی کا تو ذکر آ رہا ہے پھر مومنین کی زندگی بڑی سادہ تھی بات سنی اور تسلیم کرلی ختم یہ مطالبے اور ظاہر داری خود منافقت ہی کا تو اظہار ہے سو فرمایا جب جہاد فرض کردیا گیا تو اب دیکھو ان کا خون خشک ہورہا ہے اور یہ کافروں سے اس طرح خوفزدہ ہیں کہ اتنا تو اللہ سے ڈرنا چاہیے تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ اور یہ قانون ہے کہ جو لوگ مخلص ہوتے ہیں اور اپنے وجود پر اپنے ضمیر پر اپنے آپ پر اسلام نافذ کرتے ہیں وہ دوسروں پر بھی کرسکتے ہیں مگر جو خود کو اسلام سے نا آشنا رکھتے ہیں وہ محض منافقت سے اسلام کے نام کو زینہ بنا کر اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور بس صحابہ نے خلوص دل سے دین اپنایا تو وہ اسے روئے زمین پر پھیلانے کا سبب بنے آج کے مدی ایم این اے ہاسٹل میں شرابیں پیتے اور رنڈیوں کے ڈانس دیکھتے ہیں اور نفاذ اسلام پر بحث بھی ہوتی آپ اہل اللہ کی زندگیوں کو دیکھئے کیا ہوتا ہے ان بوریا نشینوں کے پاس صرف خلوص جو لاکھوں دلوں کو گرما جاتا ہے اور حکمرانوں کے پاس اختیارات تو ہوتے ہیں مگر خلوص نہیں اس لیے کچھ کر نہیں پاتے سو اول اپنی اصلاح ضروری ہے ورنہ پھر کافروں سے ڈر آتا ہے اور اتنا شدید کہ خوف خدا سے زیادہ کافروں کا خوف دل پہ چھا جاتا ہے کہ اللہ سے کوئی ڈرتا ہے تو امید رحمت بھی رکھتا ہے مگر وہاں سوائے ایذا کے کسی شے کی امید نہیں ہوتی اب یہ اسی دلی خوف کو چھاپنے کے لیے کہتے ہیں خدایا کچھ تھوڑی سی مہلت دے دی ہوتی ہم ذرا سنبھل جاتے مکہ والوں کو تو تیرہ برس مکہ میں مل گئے جہاد فرض نہیں ۃوا اور یہاں مدینہ میں اتنی جلدی فرمایا میرے حبیب ﷺ ان کو سمجھا تو کتنا کریم ہے رد نہیں فرماتا جھڑک نہیں رہا بلکہ پھر بھی سمجھانے کا حکم دے رہا ہے یا ر کیا کروگے دنیا کو اول تو ساری دنیا کبھی کسی کو ملتی نہیں جو تھوڑی بہت ملتی ہے ساتھ ضرور تکلیفیں بھی لاتی ہے اور پھر سب سے بڑی بات کہ آخر چھوڑ کر جانا ہے اور جو لوگ اللہ سے دوستی کر لتیے ہیں دل کی گہرائیوں سے دوستی ، ان کے لیے آخرت بہت بڑی دولت ہے جسے کبھی زوال نہیں جو کم از کم اتنی ملتی ہے کہ آدمی بس بس کرنے لگتا ہے جس کے ساتھ کوئی دکھ نہیں اور جو کبھی چھینی نہیں جائے گی مگر اللہ سے دل کو جوڑ لو ایسا کہ اس کی نافرمانی پہ تڑپ جائے موت آسان معلوم ہو اور گناہ مشکل دو تو یاد رکھو تمہارا کچھ رائیگاں نہیں جائے گا کوئی چھوٹی سے چھوٹی نیکی ضائع نہیں ہوگی ایک تار برابر زیادتی نہیں کی جائے گی اب رہی بات جینے اور مرنے کی تو بھئی موت کو تو آنا ہے آ کر رہے گی تم کسی مضبوط قلعے میں چھپ جاؤ کسی پوشیدہ ترین جگہ میں چلے جاؤ جب موت کا وقت آجائے گا تو تمہیں مرنا ہوگا اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں لیکن اگر تم جہاد کا حکم خلوص دل سے قبول کرلو تو زیادہ سے زیادہ میدان جنگ میں موت ہی آئیگی مگر نہیں تلوار کی دھار تمہیں وہ زندگی دے گی جو موت کو شکست دے دیگی مگر یہ منافق ایسے بد نصیب ہیں کہ فتح ہو تو کہتے ہیں اللہ نے اتفاقاً دے دی ورنہ یہاں کس کو سمجھ تھی منصوبہ بندی کی اور اگر شکست یا مصیبت آجائے تو آپ ﷺ کو طعنہ دیتے ہیں کہ مصیبتیں تو آپ کی وجہ سے ہمیں دیکھنا پڑیں فرمائیے سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے اور کتنی گئی گذر قوم ہے منافقین کی کہ ان کے پلے ہی کچھ نہیں پڑتا ہدایت کے اسباب میں سے آخری انتہائی موثر سب سے اعلی اللہ کا کلام اور اللہ کا رسول ﷺ ہیں جو ان کے ظہور کے بعد بھی نہیں سمجھتا اس کی جہالت بھی انتہا درجے کی ہے اور انہیں یہ بھی بتا دیجئے کہ نعمت محض اللہ کی طرف سے ملتی ہے ہم اگر عبادت اور نیکی بھی کریں تو جو کچھ پہلے حاصل کرچکے ہیں صرف اس کا شکر ادا نہیں ہوتا وجود شکل عقل اعضاء آنکھیں سوچ شعور اور کیا کچھ نعمتیں جو ہم لے چکے ہیں سو مزید جو کچھ ملتا ہے محض اس کی عطا ہے اور جو دکھ پہنچتا ہے وہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہے کافر پر مصیبت اخروی عذابوں کا ادنے سا نمونہ ہوتی ہے اور دنیا میں بطور سزا جسے از قسم عقوبات کہتے ہیں۔ مومن پر مصیبت اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اسے تلافی مافات کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں اور بعض اوقات مزید ترقی کا سبب بن جاتی ہے جو خاصان خدا پر آتی ہے اسے ترقی درجات کا نام دیا جاتا ہے۔ رہی آپ کی بات تو آپ تو ہمارے اور ہمارے بندوں کے درمیان سب سے اعلی واسطہ ہیں کہ بندہ بھی اپنی درخواست سنا سکتا ہے اپنا دکھ بتا سکتا ہے اور اللہ کا حکم بھی آپ سے لے سکتا ہے برکات و انوارات سے جھولی بھر سکتا ہے میرے حبیب صرف آپ کی ذات ہی بندوں پہ میرا کتنا بڑا احسان ہے اور آپ کی رسالت کا گواہ تو اللہ خود کافی ہے کسی دوسرے کی ضرورت ہی نہیں جب اللہ نے گواہی دی تو کتنی شاندار دی کہ بچپن معجزہ لڑکپن معجزہ جوانی معجزہ بعثت معجزہ ہجرت معجزہ حیات مدنی معجزہ حیات ابدی معجزہ پھر کسی اور گواہی کی کیا ضرورت ہے آپ کی تو کتاب تک معجزہ ہے ۔ بلکہ جس نے آپ کی غلامی کرلی اس نے اللہ کی غلامی کرلی کہ آپ ﷺ کے لب مبارک جب بھی کسی حکم کے لیے کھلتے ہیں تو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے اب اس سے بڑھ کر خوش نصیبی کیا ہوگی ہاں ایمان شرط ہے اللہ سے ایمان اس کی عظمت دل میں ہو اس کی بات سننے کو دل تڑپے اس کی بات ماننے کو جی بیقرار ہو تو یہ مسئلہ تو حل ہوگیا کہ جس نے آپ ﷺ سے سنا مجھ ہی سے سنا اور آپ ﷺ کا حکم مانا تو میرا ہی مانا اور جو اس سعادت سے محروم رہا من تولی یعنی اپنی مرضی سے بھاگ گیا ایسے بد نصیب کے لیے آپ ﷺ ذمہ دار نہیں ہیں آپ کا کام ان کی نگہبانی فرمانا نہیں کہ ہر انسان کو پسند کا حق خود میں نے دے دیا ہے خواہ وہ اس حق کو میرے ہی خلاف استعمال کرے زبردستی نہیں روکوں گا ہاں نتیجہ سے خبردار کردیا ہے اور بار بار بتا دیا ہے کہ یہ راستہ تباہی کو جاتا ہے۔ منافقین کا حال تو یہ ہے کہ اطاعت کا اقرار بھی کرتے ہیں اور جب راتوں کو اپنے گھروں میں جمع ہوتے ہیں تو آپ کے خلاف یا آپ کے احکام و فرمودات کے خلاف مشورے کرتے ہیں اور یہ جو کچھ بھی کرتے ہیں جتنا بھی چھپ کر کرتے ہیں الہ کریم لکھتے جاتے ہیں یعنی ان کا نامہ اعمال تو بن رہا ہے۔ سو میرے حبیب ان کی پرواہ مت کیجیے یا ٹھہرئیے میں بھی ترجمے کا حق ادا نہیں کرپایا ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے ان سے صرف نظر فرمائیے اس میں دونوں پہلو ہیں ایک تو امور دنیا میں امور سلطنت میں ان کی پرواہ مت کیجئے کہ کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے دوسرے انہیں رسوا مت کیجیے لوگوں میں ان کا بھید کھول کر یا انہیں اپنی تعلیمات کی محافل سے محروم فرما کر بلکہ آپ درگذر فرمائیے اور اللہ ہی پر بھروسہ رکھیے وہی بہترین کار ساز ہے۔ اتنا کرم تو منافق کے ساتھ بھی ہے کہ جھڑک دینے سے تو بالکل محروم ہوجائے گا ساتھ رہنے سے اصلاح کی امید تو ہے ورنہ ایمان سے تو پہلے خالی ہے اور کیا بگڑے گا سو علما کا بھی حق بنتا ہے کہ ایسے لوگوں کو جو عملاً اسلامی تعلیمات اور اعمال سے دور ہیں قریب لائیں اور انہیں نفرت کا نشانہ نہ بنائیں ہوسکے تو محبت دیں کہ مخلوق کی اصلاح مطلوب ہے لوگوں کو سزا دلوانا مقصد نہیں ہے وہ تو کسی کے عمل پر از خود مرتب ہو ہی جائے گی۔ اور یہ بظاہر مسلمان اور دلوں میں شبہات پالنے والے لوگ بھی عجیب ہیں کیا یہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے غور نہیں کرتے کبھی نہیں سوچتے کہ نہ صرف پوری کائنات کے مسائل ان کے اسباب ان کا حل بلکہ دونوں جہانوں کی زندگی اور دونوں زندگیوں کی ضرورتیں اور حاجات پھر ان کے اسباب و علل اور پورا کرنے کے طریقے یا محرومی کے اسباب کس حسن ترتیب اور حسن ربط سے ارشاد فرمائے ہیں اب یہ کلام اللہ کے سوا کسی بھی اور کا ہوتا تو پہلی بات تو ہے کہ دنیا کی زندگی کے علاوہ اس سے پہلے کیا کچھ تھا یا بعد میں کیا ہوگا یہ کبھی کسی فلسفی کی نہ سمجھ میں آیا نہ اس پر کسی نے بات کی یعنی بڑا حصہ جو آخرت ہے جو ابدی ہے اس کی تو خبر ہی نہیں رکھتے اور تھوڑے سے حصے کو جو زندگی کا مختصر ترین وقفہ ہے زیر بحث لاتے ہیں پھر اس میں بھی نہ صرف یہ کہ سب کی رائیں متفق نہیں ہوپاتیں خود اپنی باتوں کی تردید کرتے رہتے ہیں کہ پہلے جو بات تجربہ میں آئی وہ غلط تھی اور درست بات یہ ہے تو یہی حال قرآن کا ہوتا اس میں بیشمار اختلافات ہوتے مگر اس کی آرا ایسی ٹھوس کہ جو خبر دی کبھی تبدیل ہوئی نہ ہوگی اور احکامقوموں کے مزاج ، وقت کے تقاضوں اور سب سے بڑی بات کہ لوگوں کی قسمتوں کے مطابق بدلتے رہے مگر ٹھوس اور بغیر کسی ادنی شک کے اب رہی بات قرآن حکیم میں تدبر کی تو اس کی دعوت عام ہے ہر شخص کے لیے مگر یہ یاد رہے کہ جس طرح الفاظ قرآن اللہ کے رسول ﷺ نے بیان فرمائے ہیں اسی طرح ان کے معانی متعین فرمانا یہ منصب نبوت ہے اب اس کے اندر رہتے ہوئے قرآن حکیم اور حدیث پاک کو سمجھنے کے لیے نیز احادیث مبارکہ کو پرکھنے کے لیے جن علوم اور جس معیار کی ضرورت ہے اگر وہ کسی کے پاس ہو تو وہ شوق سے کتاب اللہ میں فکر کرے ، غور کرے ، اجتہاد کرے۔ لفظ اجتہاد میں نے عمداً استعمال کیا ہے کہ آجکل لوگوں کو اجتہاد کا بہت شوق ہورہا ہے تو اس کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ میرے خیال میں تو متقدمین ائمہ کرام نے اس کی ضرورت باقی نہیں چھوڑی ، ہر سوال جو پیدا ہوتا ہے اس کا جواب ان کے ہاں مل جاتا ہے پھر ہر شخص کی فکر کا درجہ اس کے اپنے علم ادراک اور فہم کے مطابق ہوگا مگر کسی کا اجتہادبھی ان حدود کو عبور نہیں کرسکتا جو سنت نبوی سے معین ہوچکی ہیں۔ سو ہمارے جدید مجتہدین کا مقصد پھر بھی حل نہ ہوگا کہ ان کا خیال اجتہاد کے نام پر قرآن کے نئے معنی مقرر کرنا ہے۔ جو بہرحال صرف منصب نبوت ہے کہ قرآن کی تعیین کرے کون کون سے الفاظ کون کون سی ٓیات قرٓن ہیں اور ان کے معانی معین و مقرر فرمائے جس کا رسول اللہ ﷺ نے حق ادا فرما دیا کہ نہ صرف زبانی تفسیر ارشاد فرمائی بلکہ ایسے لوگ معاشرہ ایسی حکوتم اور ایک ایسا ملک بنا سنوار کر دنیا کے روبرو کردیا جس کا ہر کام کتاب الہی کی تفسیر تھا اب اگر کسی کو اجتہاد کرنا ہے تو اس کا اجتہاد یہ ہے کہ اس میں سے اپنے مسئلے کا حل تلاش کرے یا کوئی اس جیسی مثال تلاش کرکے اس پر قیاس کرلے یہی اجتہاد ہے اور یہی قیاس اور یہ کبھی کسی زمانے میں منع نہیں ہے۔ منافقین کی ایک بات اور بھی بڑی تکلیف دہ ہے کہ بات سنتے ہیں وہ بھلائی کی ہو امن کی ہو یا خوف کی ، فتح کی خبر ہو یا کسی جگہ مسلمانوں کی شہادت فوراً پھیلا دیتے ہیں۔ حالانکہ حق یہ تھا کہ جب انہوں نے بات سنی تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت عالیہ میں عرض کرتے یا پھر متعلقہ حاکم کو اطلاع کرتے تاکہ اس خبر کی تحقیق ہو اگر فتح کی خبر تھی تو بھی سچ سچ پہنچ پاتی اگر کہیں دشمن سے نقصان پہنچنے کی اطلاع تھی تو وہ بھی درست ہوتی اور آپ ﷺ یا متعلقہ امیر اس کی تحقیق فرماتے (اولو الامر پہ بات پہلے گذر چکی ہے اگر چاہیں تو ٓیہ اولی الامر منہم میں دیکھ لیں) استنباط ہوتا ہے۔ تحقیق کرکے خبر کی تہ سے حقیقت کو پا لینا اور یہ رسول اللہ ﷺ کو بھی حکم دیا جا رہا ہے اسی کے ساتھ اولی الامر کو بھی یعنی یہ منصب رسالت بھی ہے کہ اخبار کی تحقیق فرمائی جائے اور علما فقہا اور حکام کا فرض بھی ہے کہ دین کے احکام میں تحقیق سے کام لیں اور ہر کس و ناکس کی بات پہ عمل کرے اسی کو تقلید کہتے ہیں۔ حکام کو اللہ نے اختیار دیا ہے وہ عام ٓدمی سے حکماً اور جبراً بات منوا سکتے ہیں اور جو بات حاکم منوانا چاہے اسے قانون کہا جاتا ہے خواہ وہ کتنا ظالمانہ ہو انہیں بھی چاہیے اللہ کا خوف کریں اور اللہ کی مخلوق سے وہ بات منوائیں جو ان کا رب اور اس کا رسول منونا چاہتا ہے مگر یہ تو اسلام ہے بھلا منافق یہ سب کچھ کیوں کریں گے۔ وہ تو الٹی سیدھی باتیں بنا کر یا آج کے دور میں نعرے لگا کر جلسے کرکے لوگوں کو پیچھے لگا لیتے ہیں۔ مگر اس دور میں ایسا نہیں ہوتا تھا کہ اللہ فرماتے ہیں۔ لولا فضل اللہ علیکم ورحمۃ۔ اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم بھی شاید شیطان کی بات مان لیتے یعنی ان منافقوں کی نعرہ بازیوں کا شکار ہوجاتے مگر اللہ کے ساتھ خلوص ، اس کے نبی کے ساتھ خلوص تمہیں ضائع نہیں ہونے دیتا بلکہ تم میں تو پھر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی حال میں بھی ان شیاطین کے ورغلانے میں نہیں ٓتے کچھ تو ایسے ہیں جن کا اپنا کچھ ہے ہی نہیں ، نہ دل نہ سوچ نہ آرزو سب بک چکا ہے اب ان سے شیطان بھی کیا لے گا۔ خواہ نسبتاً ایسے لوگ تھوڑے سہی مگر تھے ضرور کہ جنہوں نے محبت کی انتہا اور عشق کا آخر بتا دیا کہ کوئی انسان کسی انسان سے محبت کی راہ میں کہاں تک جاسکتا ہے جہاں وہ خود بھی گم ہوجائے۔ اندیشہ سود و زیاں سے بالا تر ہوجائے۔ جب کچھ پاس نہ ہو اور کسی طرح کی طلب ہی نہ رہے تو سود کیسا اور زیاں کسے کہتے ہیں۔ اور صحابہ میں ہی ایسے لوگ بھی تھے جن کا نہ دل بچا تھا کہ آرزو کرتے نہ سر بچا کہ کچھ سوچتے بس سرور عالم ﷺ کی دید ان کی زندگی ، آپ کی اطاعت ان کی دولت اور آپ کی غلامی ان کا سرمایہ حیات تھا۔ سو آپ افواہوں کی پرواہ مت کریں اگرچہ آج بھی اسے جنگ میں بہت موثر تھیار کے طور پر استعمال کرنا ایک جنگی قاعدہ ہے یعنی مخالف کیمپ میں بددلی پھیلانے والی باتیں پھیلا دینا ففتھ کالم ک نام سے یہ جنگ کا حصہ ہے اور مسلمانوں کی نوزائیدہ ریاست جو صرف مدینہ منورہ اور اس کے قرب و جوار پر محیط تھی اس میں ایسی خبریں اڑانا جبکہ دشمن واقعی زور آور اور تربیت یافتہ ہتھیاروں سے لیس اور افرادی قوت میں بھی بہت زیادہ برتری کا حامل ہو تو ایسی حالت میں تو یہ بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتی تھیں۔ جبکہ ارشاد ہوا کہ اے میرے حضبیب ﷺ اللہ کی راہ میں لڑو۔ فرمایا۔ فقاتل۔ یعنی جان توڑ کر لڑو۔ کہ تم اپنی ذات کے لیے جوابدہ ہو دوسرے خود اپنی اپنی ذات کے لیے جواب دیں گے۔ ہاں ایمان والوں کو جنگ کی تاکید ضرور کریں دیکھیں ضرورت جہاد کو فرض کردیتی ہے اور جو جسقدر ذمہ دار ہوتا ہے اسی قدر اس پہ فرض بھی آتا ہے جیسے یہاں ضرورت ہے۔ کفار مکہ للکار کر گئے میدان احد میں کہ زیقعدہ میں بدر میں دوبارہ ملیں گے اب نہ جانا تو ان کا حوصلہ بڑھانے والی بات ہوئی۔ مگر منافقین بری بری خبریں اڑا رہے ہیں کہ در پردہ انہیں کے آدمی تھے۔ ساتھ کبھی کہتے یار ابھی تو احد کے زخمی بھی اچھے نہیں ہوئے کبھی کہتے مکہ والوں نے بہت بڑی تیاری کی ہے تو اللہ نے حکم دیا میرے حبیب آپ پیچھے مت ہٹیے اگر خدانخواستہ کوئی بھی ساتھ نہ دے تو اکیلے اترئیے میدان جنگ میں کہ آپ اپنی جان کے مکل ہیں وہ پیش کردیں یعنی اب سے پہلے پیر صاحب کو جہاد کے لیے جانا چاہیے اور ان کے ساتھ علما کو کوئی جائے نہ جائے مگر انہیں یہ ضرور دیکھنا ہے کہ جانشین کس کے ہیں۔ ہاں آپ مومنین سے ناامید مت ہوئیے۔ انہیں جہاد کی ترغیب بلکہ تاکید فرمائیے چناچہ جب آپ ﷺ ستر صحابہ کو حکم دیا تو وہ تیار ہوگئے اور آپ ﷺ بدر تشریف لے گئے اسے بدر صغری کہتے ہیں۔ اب آگے کیا ہوا فرمایا اللہ قادر ہے چاہے تو کافر کو جنگ ہی سے روک دے کہ کافر اللہ سے تو نہیں لڑ سکتا۔ اللہ بہت زبردست بھی ہے اور بہت سخت سزا دینے والا بھی اگر وہ چاہے تو کافر کو قتل کی سزا دے یا مومن کو شہادت کا انعام اور چاہے تو جنگ ہی روک دے اور یہی ہوا کہ اہل مکہ کے دلوں پہ ہیبت طاری ہوگئی اور وہ نہ آسکے۔ اب جس نے تو بہتر رائے دی اچھی سفارش کی اس کے لیے اس میں ثواب ہے اور جس نے غلط رائے دی یا غلط سفارش کی وہ اس کی سزا میں سے حصہ پا لے گا۔ جیسے منافقین نے لوگوں کو جہاد سے روکنے کی کوشش کی اب وہ رکے یا نہیں یہ الگ بات ہے یہ اپنے کیے کی سزا کے حقدار قرار پائے۔ ایسے ہی مومنین جنہوں نے رائے بھی درست دی اور جن کو حکم ملا تعمیل ارشاد میں چل دئیے اب جنگ ہوئی یا نہ یہ لوگ اپنے اس کام کا ثواب ضرور پائیں گے۔ یہی قانون بن گیا سفارش کے لیے کہ اللہ کریم نے اسے دو حصوں میں بانٹ دیا ایک آدمی مستحق ہے مگر اپنا حق بھی نہیں مانگ سکتا۔ غریب ہے اس کی شنوائی نہیں ہوتی تو آپ اس کے حق کے لیے کہہ سکتے ہیں تو ضرور کہہ دیں۔ یہ شفاعتِ حسنہ ہوگی۔ اب اس کا کام تو متعلقہ حاکم نے کرنا ہے مگر آپ نے بات پہنچا کر حق ادا کردیا۔ اب زبردستی منوانا ضروری نہیں آپ ثوا کے مستحق ہوگئے اور اگر ناحق سفارش کی یا اثر و رسوخ استعمال کرکے کسی کو ایسی چیز دلوا دی جو اس کا حق نہ تھا یا اس کیلئے آپ نے کوشش کرلی اسے مل گئی یا نہ ملی آپ کا حصہ گناہ میں شامل ہوگیا۔ جسے ہم کبھی پیسے کے لیے یا بدلے میں اور کوئی ذاتی فائدہ حاصل کرکے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے کسی ایسے آدمی کا وہ کام کروانے کی سعی کرتے ہیں جو اس کا حق نہیں تو کام ہو یا نہ ہو ہمارا حصہ گناہ میں ضرور ہوجاتا ہے اور آجکل تو سب سے زیادہ ظلم ووٹ اور انتخاب میں ہوتا ہے ۔ ہر اس آدمی کے لیے کوشش کی جاتی ہے جو کسی بھی اس منصب کا اہل نہیں ہوتا۔ اللہ کریم ہمیں معاف فرمائیں اور ہدایت نصیب فرمائیں کہ ہم ہر کام کے لیے اللہ کی عظمت کو پیش نظر کھیں اس لیے کہ وہی ہر چیز پہ قدرت رکھنے والا ہے۔ روزی دینے کا کام ہو ، عہدہ عطا فرمانا ہو ، عزت و آبرو ہو یا عیش و آرام ، دنیا ہو یا آخرت سب کچھ وہی دے سکتا ہے کہ وہ قادر مطلق ہے۔ اور ہاں اگر کوئی چھا کلمہ کہے دعا دے یا کلمہ خیر کہے تو اسے اس کے الفاظ سے بہتر الفاظ میں جواب دیا کرو یا پھر کم از کم اس کے الفاظ تو اسے لوٹا دیا کرو۔ اسلام نے اس دعا کو شروع کردیا کہ دنیا کی تمام مہذب اقوام میں ملتے بچھڑتے وقت کچھ الفاظ دعائیہ یا ایسے جن سے اظہار شکر ہوتا ہو یا اظہار محبت ہوتا ہو ضرور کہتے جاتے ہیں۔ عربوں میں بھی قبل اسلام دعائیہ الفاظ رائج تھے مثلا حیاک اللہ یا انعم صباحا وغیرہ۔ مگر اسلام نے اللہ کریم کے مبارک نام ، سلام کو جو ہر ہر طرح کی سلامتی کو محیط ہے اور ہر جگہ ہر زمانے میں محیط ہے۔ اپنی دعا کا مرکزبنایا اور عند الملاقات یہ حکم رائج فرمایا السلام علیکم۔ یہ ایک جامع دعا بھی ہے نہ صرف زندہ رہنے کی دعا بلکہ دنیا کی ہر تکلیف سے بچنے کی دعا نہ صرف صحتمند رہنے کی دعا بلکہ نیک اور صالح بھی رہنے کی دعا نہ صرف نیک انجام کی دعا بلکہ موت بعد الموت قبر اور حشر تک سلامتی ہی سلامتی تمہیں نصیب ہوتی چلی جائے۔ کتنی عجیب دعا ہے کاش یہ دوسرے کے لیے ہمارے دل سے نکلے پھر اس کا کم از کم اثر یہ ہے جو ہر آفت سے محفوظ رہنے کی دعا دے رہا ہے وہ خود تو اس کے لیے آٖت بننا پسند نہیں کرے گا۔ یعنی یہ ضمانت ہے کہ تمہاری جان و مال ، آبرو مجھ سے محفوظ ہے۔ اسے کوئی خطرہ نہیں اور اللہ فرماتے ہیں جواب بہتر الفاظ میں دو تو زیادہ مناسب ہے۔ سو آپ ﷺ سے کسی نے آ کر السلام علیکم عرض کیا تو فرمایا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔ کسی دوسرے نے آ کر عرض کیا تو اس نے ساتھ رحمت بھی شامل کرلی تو آپ نے وبرکاتہ بڑھا دیا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ پھر جو حاضر ہوا اس نے یہی پورا سلام عرض کیا تو فرمایا وعلیک۔ اس نے عرض کیا حضور آپ نے سب کو بڑھا کر جواب دیا تھا۔ فرمایا تو نے میرے لیے باقی نہیں رہنے دیا یعنی سب دعائیں جمع کردیں میں نے تجھ پر لوٹا دیں تو محققین فرماتے ہیں کہ تین دعاؤں سے بڑھنا بھی درست نہیں بس یہاں تک ہی سنت سے ثابت ہے۔ حدیث شریف میں سلام کرنے کی شرائط بھی ارشاد ہوئیں۔ مثلا کچھ لوگ بیٹھے ہیں تو گذرنے والے کو چاہئے سلام کرے۔ کچھ لوگ تعداد میں کم ہوں تو جو زیادہ ہیں ان کو سلام کہیں۔ ایسے ہی سوار پیدل کو سلام کرے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی قبروں پر گذر ہو تو بھی مسنون سلام ضرور کرے اور سلام کرنا مسنون ہے۔ مگر اس کا جواب دینا واجب ہے۔ ہاں بعض حالتوں میں سلام نہیں دیا جائے گا جیسے کوئی نماز پڑھ رہا ہے یا تلاوت کررہا ہے یا اذکار میں مصروف ہے۔ اگر کوئی دے تو جواب دینے کی ضرورت نہیں اور ایک شخص بار بار ملے تو ہر بار سلام دیا جائے گا۔ بلکہ حدیث شریف میں بہت زیادہ تاکید آئی ہے کہ سلام کو مسلمانوں میں عام کیا جائے کہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور مصائب کم ہوتے ہیں۔ اور اللہ کریم ہی ہر چیز کا حساب کرنے والے ہیں کہ کس نے زبان سے کیا کہا اور دل میں کیا سوچا یا ارادہ کیا تھا۔ الہ ہی ایسی ہستی ہے جس کے سوا کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس کی عبادت یعنی مکمل اطاعت کی جائے اور اس بات میں بھی رائی برابر شبہ نہیں ہے کہ تمہیں یوم حشر جمع فرمائے گا یہ اتنی سچی بات ہے کہ اللہ کی بات سے بڑھ کر تو کسی سچائی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
Top