Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 48
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ قَالُوْا مَاۤ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ
وَنَادٰٓي : اور پکاریں گے اَصْحٰبُ : والے الْاَعْرَافِ : اعراف رِجَالًا : کچھ آدمی يَّعْرِفُوْنَهُمْ : وہ انہیں پہچان لیں گے بِسِيْمٰىهُمْ : ان کی پیشانی سے قَالُوْا : وہ کہیں گے مَآ اَغْنٰى : نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں جَمْعُكُمْ : تمہارا جتھا وَمَا : اور جو كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ : تم تکبر کرتے تھے
اور اعراف کے رہنے والے ان لوگوں سے پکار کر کہیں گے جن کو ان کے چہروں سے پہچانتے ہوں گے کہ تمہارا اکٹھ تو تمہارے کسی کام نہ آیا اور تم تو بہت اکڑا کرتے تھے
رکوع نمبر 6 ۔ آیات 48 ۔ تا۔ 53 اسرار و معارف : جہنم میں پڑے ہوئے بعض لوگوں کو تو ان کی شکلوں تک سے پہچانتے ہوں گے اور دنیا میں ان کے کردار سے واقف ہوں گے جب وہ محض مال و دولت یا اختیار و اقتدار پر نازاں عظمت الہی اور دار آخرت کو بھولے ہوئے تھے نہ صرف یہ بلکہ نیک لوگوں پہ پھبتیاں کہتے تھے کہ انہیں دیکھ ویہ آخرت کے انعامات کی امید میں یہاں عبادات کی مصیبت میں پڑے ہیں اور فقر و فاقہ میں بھی شکر ادا کرتے ہیں دولت و مال مل جائے تو بھی عیش ان کے نصیب میں نہیں بھلا آخرت میں انہیں خاک آرام نصیب ہوگا دنیا والوں کے ساتھ تو یہ چل نہیں سکتے اور چلے ہیں آخرت کو پانے ۔ اہل اعراف ان کی یہ باتیں انہیں یاد دلاتے ہوئے کہیں گے کہ تمہارا مال و زر اور جاہ و اقتدار کا ہوا یہاں تو تمہارے کسی کام نہ آیا بلکہ ناجائز مال اور ناروا اختیارات نے تمہیں تباہ کردیا انہی چیزوں پہ تم اکڑتے تھے اوپر دیکھو کیا یہ وہی لوگ نہیں جن کے بارے تم قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ان پر کبھی رحمت الہی متوجہ نہ ہوگی آج تو نہیں رب العزت نے فرما دیا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ جو مظہر رضا ہے اور جہاں تمہیں کسی بات کا در نہیں ہوگا کسی نعمت کے زوال کا کوئی اندیشہ نہ ہوگا اور نہ کبھی کوئی غم تمہارے پاس پھٹکے گا۔ رحمت باری کی دلیل : دنیادار محض مال و دولت اور اقتدار کو اللہ کی رضا مندی کی سند بنا لیتا ہے جب کہ یہ دونوں چیزیں ہی اس کے لیے وبال آخرت ثابت ہوتی ہیں اور اسے اطاعت الہی سے بیگانہ کردیتی ہیں ہاں اگر اطاعت الہی کی توفیق نصیب ہوجائے تو یہ رحمت باری کی دلیل ہے اگر اطاعت کے ساتھ رزق حلال اور ایسا اقتدار و اختیار بھی نصیب ہو جس میں احکام الہی پہ نہ صرف خود عمل کرے بلکہ دوسروں سے بھی کروا سکے تو یہ اللہ کا بہت بڑا انعام ہے لیکن محض مال یا اقتدار جو عظمت باری سے بھی بیگانہ کردے غضب الہی کی ایک صورت ہے۔ اہل جہنم بےقرار ہو کر اہل جنت کو پکاریں گے کہ تمہارے قدموں میں تو چشمے جاری ہیں اور باغات رنگارنگ پھلوں سے لائے ہیں چند گھونٹ پانی ہی عطا کردو کہ اندر بارہ آگ ہی آگ ہے شاید کچھ افاقہ نصیب ہو یا کوئی کھانے کی چیز ہی عطا کردو تو وہ کہیں گے یہاں اپنا کچھ نہیں سب اس ما لک کا ہے جس کے خود ہم بھی ہیں اور اس نے یہ چیزیں کافروں سے روک دی ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جسمانی رشتے اور محبتیں جنہیں ہم نسبی یا خونی بھی کہتے ہیں محض دنیا میں متاثر کرتے اس لیے کہ ان پر بقائے نسل کا انحصار ہے برزخ کا تعلق بھی ایک طرف دنیا سے اور دوسری طرف آخرت سے ہے وہاں بھی کسی حد تک ان کا اچر رہتا ہے مگر قیام قیامت پہ ان کا اثر ختم ہوجائے گا اور صرف روحانی اور ایمانی روشہ باقی رہے گا ہاں ایمانی رشتے کے بعد اگر دونوں میں جسمانی رشتہ بھی ہوا تو بہت خوب ورنہ کسی کا باپ یا بیٹا بھی جہنم میں ہوا تو اسے اس کا کوئی دکھ نہیں ہوگا ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ قیامت سب رشتے توڑ دے گی سوائے ان دو افراد کے جو محض اللہ کے لیے جمع ہوئے اور اسی کی طلب میں جدا ہوئے۔ مصیبت بدعات کی : اب بات عظمت الہی کی طرف آگئی کہ یہ تو کمزور لوگ تھے معمولی سی دنیا پہ بپھر گئے اللہ کی ذات تو بہت عظیم ہے اس نے اتنی سخت پابندی کیوں لگا دی تو ارشاد ہوتا ہے ان کا جرم صرف یہ نہیں کہ انہوں نے عبادت ترک کردی بلکہ اپنی طرف سے بدعات و رسومات بنا کر انہیں باعث ثواب جانتے تھے اور کھیل تماشے کو دین سمجھ رکھا تھا کھیل اور تماشے سے مراد ایسے کام ہیں جو انسان محض خواہش نفس پر کرتا ہے جیسا کہ گانا بجانا ، دعوتیں اڑانا یا مردوں عورتو کا مل جل کر مذاق وغیرہ کرنا ان سب باتوں کو یہ عبادت کے طور پر اپنائے ہوئے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال دیا اور انہوں نے کسی بات کی پرواہ ہی نہیں کی بلکہ قیامت کی ملاقات اور بارگاہ الہی کی پیشی تو یہ بھول ہی گئے اگر اس کا خیال ہوتا تو دین نبی سے حاصل کرتے اور اللہ کریم کی اطاعت اختیار کرتے الٹا انہوں نے احکام الہی کا انکار کیا اور جزا چونکہ اعمال کی جنس سے ہوتی ہے لہذا جس طرح یہ ہماری عطمت اور قیامت کی پیشی کو بھول گئے تھے ایسے ہی آج ان کا وجود ہمارے لیے ہے جیسے کوئی بھولی ہوئی چیز جس کی کبھی فکر نہیں کی جاتی۔ ہم نے تو اپنی رحمت ان تک پوری قوت سے پہنچائی اپنا ذاتی کلام نازل فرمایا جو ہر شے اور ہر بات کے بارے حقیقی علم تھا اور پوری پوری رہنمائی بھی کرتا تھا اور سراپا رحمت تھا مگر یہ سب نعمتیں تو ماننے سے تعلق رکھتی تھیں انہوں نے اپنی مرضی اور پسن د سے اس کا انکار کردیا اب یہ جو کچھ بھگت رہے ہیں یہ ان کی اپنی اختیار کردہ راہ کے نتائج ہیں۔ برکات نبوت : یہ جاہل اس انتظار میں رہے کہ دیکھیں جن خطرات سے کتاب الہی نے خبردار کیا ہے کیا وہ سامنے آتے بھی ہیں یا نہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ جب یہ سب کچھ واقع ہوجائے گا تو دار عمل ختم ہوچکا ہوگا بھلا پھر اصلاح کی فرصت کسے نصیب ہوگی نور ایمان کے ساتھ برکات نبوت نصیب ہوں تو یہ یقین حاصل ہوجاتا ہے اور شیخ برکات نبوت کا امین ہوتا ہے لہذا اگر آخرت پہ یقین میں پختگی پیدا ہورہی ہو اور نیک باتوں پہ عمل کی طلب دل میں آجائے تو یہی مقصود ہے اگر یہ نعمت نہ ملے تو محض امور دنیا کے لیے کسی کو پیر بنا لینا اپنے ساتھ دھوکا ہے۔ ربوبیت کا تقاضا : کہ جب سب کچھ سامنے آجائے گا تو آخرت کو بھولنے والے بھی کہہ اٹھیں گے واقعی ہمارے پروردگار کے رسول کی سچائی کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے یہاں اللہ کی بجائے رسول کی نسبت صفائی نام رب کی طرف کی گئی ہے کہ انبیاء کی بعثت اس کی شان ربوبیت کا تقاضا ہے جس طرح ابدان کی ضرورت کے لیے بیشمار مادی نعمتیں پیدا فرمائی ہیں ویسے ہی ارواح کی جملہ ضروریات کو انبیاء مبعوث فرما کر پورا کردیا پھر حسرت سے کہیں گے کہ کاش آج کوئی سفارشی ہی کام آجاتا کیونکہ کفر کے لیے شفاعت بھی منع ہوگی یا ہمیں دنیا میں لوٹا دیا جاتا تو جو کچھ کرتے رہے ہیں اس سے توبہ کرلیتے اور اللہ کی اطاعت اختیار کرتے گویا وہ خود بھی اس بات پر گواہ ہوں گے کہ اگر چاہتے تو دنیا میں نیکی بھی کرسکتے تھے مگر انہوں نے بدی کی راہ اختیار کی اور اپنے آپ کو تباہ کرلیا اور جو جھوٹ پسارا مذہب کے نام پہ جوڑا تھا وہ ان کے کسی کام نہ آیا۔ بلکہ الٹا عذاب کا باعث بن گیا۔
Top