Asrar-ut-Tanzil - Ar-Ra'd : 3
اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰى وَ الرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ١ؕ وَ لَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِ١ۙ وَ لٰكِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا١ۙ۬ لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّ یَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
اِذْ : جب اَنْتُمْ : تم بِالْعُدْوَةِ : کنارہ پر الدُّنْيَا : ادھر والا وَهُمْ : اور وہ بِالْعُدْوَةِ : کنارہ پر الْقُصْوٰي : پرلا وَالرَّكْبُ : اور قافلہ اَسْفَلَ : نیچے مِنْكُمْ : تم سے وَلَوْ : اور اگر تَوَاعَدْتُّمْ : تم باہم وعدہ کرتے لَاخْتَلَفْتُمْ : البتہ تم اختلاف کرتے فِي الْمِيْعٰدِ : وعدہ میں وَلٰكِنْ : اور لیکن لِّيَقْضِيَ : تاکہ پورا کردے اللّٰهُ : اللہ اَمْرًا : جو کام كَانَ : تھا مَفْعُوْلًا : ہو کر رہنے والا لِّيَهْلِكَ : تاکہ ہلاک ہو مَنْ : جو هَلَكَ : ہلاک ہو عَنْ : سے بَيِّنَةٍ : دلیل وَّيَحْيٰي : اور زندہ رہے مَنْ : جس حَيَّ : زندہ رہنا ہے عَنْ : سے بَيِّنَةٍ : دلیل وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ لَسَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
جب تم (میدان کے) ادھر والے کنارے پر تھے اور وہ لوگ (کفار ، میدان کے) ادھر والے کنارے پر تھے اور قافلے والے تم سے نیچے تھے اور اگر تم کوئی بات طے کرتے تو وقت مقررہ پر ضرور آگے پیچھے ہوجاتا و لیکن جو کام اللہ کو کرنا منظور تھا اس کو کر ہی ڈالے تاکہ جسے برباد ہونا ہے وہ واضح دلیل کے بعد برباد ہو اور جسے زندہ رہنا ہے (ہدایت پانا ہے) وہ بھی واضح دلیل سے (ہدایت پائے) اور بیشک اللہ خوب سننے والے ، جاننے والے ہیں
آیات 42 تا 44 اسرار و معارف جب جہاد کے میدان کی بات ہوئی تو غنیمت کا مسئلہ ارشاد فرمادیا گیا غنیمت وہ مال ہوتا ہے جو فتح کے نتیجہ میں کفار سے ہاتھ آئے یہ تو فطری بات ہے کہ شکست کھانے والا لشکر مال ومنال بہت کچھ کھو بیٹھتا ہے ۔ اور فاتح اسے اپنا حق سمجھتے ہیں مگر انبیاء علہیم الصلوۃ والسلام نے جب کبھی جہاد کیا اور کفار کا مال ہاتھ لگاتو اسے میدان میں جمع کردیا جاتا تھا آسمان سے آگ آتی شعلہ لپکتا اور وہ مال راکھ ہوجاتا یہ بات قبولیت جہاد اور خلوص کی دلیل بھی تھی اگر لوگوں نے جہاد کا حق ادانہ کیا ہوتا یا زیادتی کی ہوتی تو یہ مال جلانے آسمان سے آگ یا بجلی نہ آتی تھی غزوئہ بدروہ پہلا جہاد تھا جو باقاعدہ ایک فوج کی صورت میں امت مرحومہ نے اللہ پاک کی اجازت سے کیا اور اس میں بیشمار فضیلتوں کے ساتھ یہ خصوصیت بھی آپ ﷺ کو عطاہوئی کہ مال غنیمت جلائے جلائے جانے کی بجائے مجاہدین پر حلال کردیا گیا وہ کیسے تقسیم ہوگا تو فرمایا سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مال غنیمت خالص اللہ کی طرف سے بطور انعام عطا ہوا ہے آپ ﷺ کے لیے اور آپ کی امت کے لیے یوں تو ساری کاتنات اسی کی ہے مگر کچھ عارضی قوانین ملکیت اسی کے رانج کردہ ہیں کوئی چھوٹی ہو یا بڑی چیز تو اس کی تقسیم یوں ہوگی کہ پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے چار حصے مجاہدین پر تقسیم ہوں گے ۔ اور پانچواں حصہ خالص اللہ کے لیے پھر اللہ کے رسول کے لیے اور ان کے قرابت داروں کے لیے یتیم ، مساکین اور مسافروں کے لیے ہوں گے یعنی مال خاص اللہ کا ہوگا جس میں سے خرچ کرنا یہ اللہ کے رسول کا کام ہے اپنی ضرورت پر اپنے اقارب کی ضرورت پر یا یتیموں مساکین اور مسافروں پر منسرین کرام کے مطابق رب جلیل نے غنیمت کے مال سے پانچواں حصہ اپنے نام یعنی بیت المال میں لیکر اس کی تقسیم رسو ل اللہ ﷺ کی صوابدید پر چھوڑدی اور مصارف مقررفرمادیئے کہ ان قسموں کے اندر اسے اللہ کی راہ میں یعنی ریاست کی ضرورت پر خود نبی کریم کے ذاتی مصارف یا آپ کے اقربا کی ضروریات پر چونکہ زکوۃ کے مال سے نبی رحمت اور آپ کے اقارب کو منع فرمادیا گیا اس لیے کہ اس مال کو اوساخ الناس یعنی میل کچیل کہا گیا ہے جو شان نبوت اور آپ کے اقربا کی شان کے لائق نہ تھا اس کے مقابل غنیمت کو اطیب الا موال سب سے پاکیزہ مال فرمایا کہ براہ راست ذات باری سے نصیب ہوتا ہے تو اس میں ان ضروریات کو مقدم رکھا نیز یتیم مساکین اور مسافر بھی مستحقین میں شمارفرمائے یہ ضروری نہیں کہ سب میں برابرتقسیم ہو یہ آپ کی عطاپر ہے کہ ان کی ضروریات ملا خطہ فرما کر جو عطافرمادیں اسی لیے حضرت فاطمہ ؓ نے جب ایک خادم کے لیے عرض کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اہل صفہ زیادہ ضرورتمند ہیں انہیں کی ضروریات پوری کی جائیں گی ان سے زیادہ اقارب میں کون تھا مگر آپ کی رائے عالی کا فیصلہ ہی اللہ کو پسند ہے اور یہ اختیار آپ کو بخشا ہے یاد رہے خمس مال غنیمت میں یعنی جو مال کفار سے جہاد کے ذریعے حاصل ہو اسمیں ہے شیعہ نے اسے تمام مال میں زکٰوۃ کا قائم مقام قرار دے کر غلط کیا ہے آپ کے بعد خلفاء راشد ین ضرورت مند ذوی القربی میں تقسیم فرمایا کرتے تھے بلکہ سیدنافاروق اعظم ؓ تو حضرت علی ؓ کو متولی بناکر ان سے تقسیم کرواتے تھے مگر اکثر ذوی القربی بھی باقی چارحصے جو مجاہدین میں تقسیم ہوتے تھے ان کی وجہ سے محتاج نہ رہے تھے بلکہ محتاج کیا بہت زیادہ امیر ہوگئے تھے ۔ فرمایا اگر تمہیں اللہ کے ساتھ ایمان نصیب ہے اور اس غیبی امداد پر جو اللہ کریم نے اپنے بندے پر اس دن اتاری تھی جو فیصلہ کا دن تھا یوم الفرقان جس نے حق و باطل میں ہر طرح سے فرق ظاہر کردیا کہ حق غالب رہا اور باطل نے منہ کی کھائی اور معرکہ بدر اس روز سے لیکر قیامت تک اعلائے کلمۃ اللہ کی بنیاد بن گیا اور یہی دن تھا جس سے دائمی ابدی حقیقی انقلاب کی بنیاد علی الا علان استوارہوئی اور انشاء اللہ ہمیشہ قائم رہے گی وہ فیصلے کا دن جب حق والے ایک طرف تھے اور باطل دوسری طرف تھا سرمیدان دونوں نے ارمان نکالے اور نصرت الہیہ کا پتہ چل گیا کہ اللہ کس کے ساتھ ہے یہ اتنا بڑا انقلاب تھا کہ صرف اللہ ہی کی مدد سے یہ ہوسکا کہ وہ ہرچیز پر قادر ہے جو چاہے کرسکتا ہے ورنہ محض مادی وسائل یا انسانی تدابیر سے یہ سب کچھ ہرگز ممکن نہ تھا مال غنیمت اسی کی عطا ہے گویا یہ سبق بھی ہے کہ اگر مال غنیمت میں کوئی بددیانتی کی گئی تو اللہ کی مدد سے محرومی کا خطرہ موجود ہے ۔ تائیدباری مال غنیمت اور خلاف راشدہ میں روئے زمین اور اقوام عالم کا مسخر ہوجانا تائیدباری کی واضح دلیل ہونے کے ساتھ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کی پسند کے مطابق خرچ فرماتے رہے ورنہ اللہ کی حمایت حاصل نہ کرسکتے ۔ شیعہ حضرات جو اہل بیت کے حقوق کا روناروتے ہیں یہ محض ان کی افسانہ تراشی ہے خود تو سارا اسلا م بدل کرنئے ارکان ایجاد کرلیے اور دوسری طرف مسلمان ہونے کا دعوی بھی ہے اور عتراض صحابہ ؓ پر کرتے ہیں بہرحال یہاں عزوئہ بدرکاپورانقشہ بیان فرمایا اور وہ معجزات جو بظاہرنظر نہیں آتے ارشاد فرما کر وہ بہت بڑا نتیجہ جو اس کا حاصل تھا ارشاد فرمادیا کہ جب تم لوگ یعنی مسلمان اس کنارے پر تھے اور مشرکین مکہ میدان کی پرلی طرف کے کنارے پ ر اور قافلہ تم لوگوں سے نیچے ہو کر تقریبا تین میل کے فاصلہ سے ساحل سمندر سے گذررہا تھا تو یہ صورت حال ایسی تھی کہ کوئی فوج بھی لڑنے کی پوزیشن میں نہ تھی مسلمان تعداد میں کم تھے اسلحہ نہ ہونے کے برابر کھانے کو کچھ نہیں میدان بدر کا جو حصہ مسلمانوں کے پاس تھا وہاں پانی بھی نہ تھا بلکہ دور تھا اور زمین بہت زیادہ ریتلی جس میں قدم اٹھا نا دشوار نیز قافلہ بھی بچ کر گذر گیا تو بظاہر کوئی صورت جنگ کرنے کی نہ تھی دوسری طرف مشرکین تعداد اسلحہ اور راشن وغیرہ کی کمی سے تو دوچار نہ تھے مگر جس قافلے کی مدد کو نکلے تھے وہ تو بچ کر گذر گیا اور انہیں اس کی خبر بھی گئی کس کس طرح ناکام ہوئیں شب ہجرت کیسے ذلیل ہوئے پھر راستے میں تلاش کرنے کی ساری کوشش کیسے نامرادی سے دوچار ہوئی تو اب انہیں یوں لڑنے کی ضرورت نہ تھی البتہ اگر واپس جاتے منصوبہ بندی کرتے تو بات اور ہوتی یہ سب صورت حال اس بات کا تقاضا کرتی کہ اگر تم دونوں فریق وعدہ کرکے بھی آتے تو یہاں آکر ارادے بدل دیتے اور وعدئہ جنگ پورانہ کرتے کہ بظاہر کسی کو اپنا نفع نظر نہیں آرہا تھا ۔ الٹا ہلاکت کا خطرہ موجود۔ اللہ کریم جو کام کرنا چاہیں اس کے لیے اسباب مہیافرمادیتے ہیں لیکن اللہ کریم اس کام کو کرنا چاہتے تھے ایسی حالت میں کہ حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے لہٰذا مادی اسباب میں سے کوئی ایساسبب مسلمانوں کی طرف نہ ہو جس کو فتح کا باعث قراردیا جاسکے اور مادی اعتبار سے کوئی کمی لشکر کفار میں بھی نہ ہو جو شکست کا سبب قرار پائے بلکہ یہ واضح ہوجائے کہ فتح صرف اور صرف اللہ کی مدد اور تائیدغیبی کے باعث ہوئی جو آپ کی نبوت کی صداقت اور اسلام کے حق ہونے کی دلیل ہے اور راہل مکہ کو شکست صرف اللہ کے غضب اور ناراضگی کی وجہ سے ہوئی جو ان کے باطل پر ہونے کی دلیل ہے اور اہل مکہ ہلاک ہونا ہو یعنی گمراہ ہی رہنا ہو اسے بھی غلط فہمی نہ رہے ۔ واضح دلائل کے بعد اگر موت بھی قبول کرتا ہے تو اس کی اپنی پسند یہاں موت سے مراد کفر اور حیات درون یعنی قلب کی زندگی سے محرومی ہے اور قرآن حکیم نے متعدومقامات پر ایسی حالت کو موت ہی کہا ہے اور جسے زندگی نصیب ہو یا جو حیات کو پاناچا ہے تو اس کے پاس بھی دلیل ہو ۔ یہاں حیات اور زندگی سے مراد بی نور ایمان اور کیفیات قلب ہیں کہ جو پاناچا ہے اسے تلاش میں کوئی دشواری نہ ہو اہل حق ستاروں کی مانندروشن ہو کر سامنے آجائیں ۔ وار دنیا میں اہل اللہ کی مددکیلے بھی اسباب مہیاترک سبب درست نہیں اللہ کریم تو سب کی سنتے بھی ہیں کہ کوئی کیا مشورہ کررہا ہے یا کیا ارادے باندھتا ہے بلکہ جانتے ہیں کہ کس کے اندرون دل کیا جھپا ہے اس کے مطابق ہی نتائج پیدافرماتے ہیں ۔ اہل مکہ کا باطن بھی عیاں تھا اور مسلمانوں کے دلوں کی خواہشات بھی روشن چناچہ اہل حق کی مدد فرمائی اور ایسے اسباب پیدافرمادیئے کہ ان کی عظمت سارے عالم اسلام پہ واضح ہوجائے ۔ مثلا قافلے کی اطلاع ۔ مسلمانوں کا اسے روکنے کا فیصلہ پھر اس کی خبراہل مکہ کو ان کا اس کی حفاظت کے لیے نکلنا اور پھر قافلے کا بچانا اور دونوں لشکروں کو آمنے سامنے پہنچا دینا اور پھر آپ کو خواب میں کفار کی تعدادبہت کم کرکے دکھانا جس کی تعبیر آپ نے کفار کی ناکامی سے لی اور صحابہ ؓ بہت خوش ہوئے اور حوصلہ پایا کہ اگر آپ کفار کو شان و شوکت میں ملا خطہ فرماتے تو جب آپ خدام سے بیان فرماتے تو فطرتایہ بات ایسی تھی کہ جہاد اور مقابلے پہ اتفاق نہ ہوپاتا بلکہ کچھ لوگ جوش میں کہتے کہ لڑنا چاہیئے کچھ ہوش استعمال کرتے کہ لڑنامناسب نہیں اس طرح اختلاف کمزوری کا باعث بنتا۔ اہل اللہ میں بھی فطرت انسانی کے تقاضے بدستورہوتے ہیں لیکن اللہ نے آپ کے خواب مبارک کو ہی اس سب خطرے سے سلامتی کا سبب بنادیا اور مسلمانوں کو ایسی آزمائش سے بچالیا اس لیے کہ وہ دلوں کے بھید جانتا ہے ۔ تہ دل میں جو خلوص تھا اس کو قبول فرمایا اور ایسے اسباب پیدافرمائے کہ مسلمانوں کو ابتل اسے سلامتی نصیب ہوئی ۔ اس سے ثابت ہوا کہ اہل اللہ کوئی مافوق الفطرت لوگ نہیں ہوتے ۔ ان کے احساسات وجذبات بھی بالکل انسانی جذبات ہی ہوتے ہیں ہاں اللہ کریم کبھی اسباب کو ان کے مزاج کے مطابق بنادیتے ہیں یا پھر انہیں قوت برداشت عطا کردیتے ہیں اور کبھی دونوں صورتیں مہیا فرمادیتے ہیں جیسے یہاں میدان بدر میں دونوں صورتیں عطافرمادیں اور یہ انعام خلوص قلبی پہ مرتب ہوتے ہیں۔ آپ کے خواب کے بعد سب دونوں لشکر آمنے سامنے تھے تو پھر یہ اہتمام فرمایا کہ مسلمانوں کو کفار کی تعداد کم کرکے دکھائی حتی کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں میں نے اپنے ساتھی ہے کہا کہ اہل مکہ کی تعداد 90 ہوگی تو اس نے کہاغالبا 100 سوہونگے حالانکہ ان کی تعدادایک ہزار تھی اسی طرح تمہاری تعدا اگر چہ کفار کے مقابلہ میں بہت کم تھی مگر پھر مزید کم کرکے کفار کو دکھائی گئی جیسا کہ روایت میں ہے کہ ابو جہل نے مسلمانوں کو دیکھ کر کہا کہ اتنے آدمی ہونگے جن کی خوراک ایک اونٹ ہو اور عرب ایک اونٹ سو آدمی کی خوراک شمار کرتے تھے ۔ اللہ کریم کی قدرت دیکھئے بغیر کسی سبب کے سب کچھ کرسکتا ہے مگر کتنے اسباب مہیافرمانے فرشتوں کا نزول مقابل لانے کے اسباب میدان میں اترنے کے اسباب گویا سنت اللہ ہے کہ عالم اسباب میں ترک سبب بلاضرورت شرعی نہ لیا جائے ۔ اللہ نے یہ سب اسباب اس لیے جمع فرمادیئے کہ اللہ جو کرنا چاہتے ہیں یعنی اسلام اور مسلمانوں کا عنداللہ محبوب ہونا اور کفار اور صحابہ ؓ کے مخالفین کا اللہ کے غضب کی زد میں ہونا ان امور کی وضاحت کردی جائے کہ تا قیامت اہل حق اس فریق کے نقوش کف پا اپنا لیں جو حق پر تھے اور تباہ ہونے والے یہ نہ کہہ سکیں کہ بظاہر کوئی دلیل نظر نہیں آئی اور سب چیزوں اور تمام امور کو اللہ کی بارگاہ میں ہی لوٹ کرجانا ہے یعنی چیزیں ہوں یا اسباب و کیفیات سب اسی کے ارادے اور اسی کے حکم کے تابع ہیں ۔
Top