Tafseer-e-Baghwi - At-Takaathur : 8
ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر لَتُسْئَلُنَّ : تم پوچھے جاؤگے يَوْمَئِذٍ : اس دن عَنِ النَّعِيْمِ : نعمتوں کی بابت
پھر اس روز تم سے (شکر) نعمت کے بارے میں پرسش ہوگی
8 ۔” ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم “ مقاتل (رح) فرماتے ہیں یعنی کفار مکہ وہ دنیا میں خیر اور نعمت میں تھے۔ پس وہ قیامت کے دن اس کے لشکر کے بارے میں سوال کیے جائیں گے جس میں وہ تھے اور انہوں نے نعمتوں کے رب کا شکرادا نہیں کیا کہ اس کے غیر کی عبادت کی، پھر وہ شکر کے چھوڑنے پر عذاب دیئے جائیں گے۔ یہ حسن (رح) کا قول ہے اور ابن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے اس کو مرفوع نقل کیا ہے فرمایا ” لتسئلن یومئذ عن النعیم “ فرمایا امن اور صحت اور قتادہ (رح) نے فرمایا ہے بیشک اللہ تعالیٰ ہر نعمت والے سے سوال کریں گے اس نعمت کے بارے میں جو اس پر کی ہے۔ بندے سے اس پر نعمتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن بندہ سے پہلا سوال نعمتوں کے بارے میں کیا جائے گا، اس کو کہا جائے گا کیا ہم نے تیرے جسم کو تندرست نہیں کیا ؟ اور ہم نے تجھے ٹھنڈے پانی سے سیراب نہیں کیا ؟ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ ایک ایسے وقت میں نکلے کہ اس میں گھر سے نہ نکلتے تھے اور نہ کسی سے ملاقات کرتے تھے تو آپ (علیہ السلام) کے پاس ابوبکر ؓ آئے تو فرمایا اے ابوبکر ! تجھے کیا ضرورت لائی ؟ انہوں نے کہا کہ میں گھر سے نکلا تاکہ میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کروں اور آپ (علیہ السلام) کے چہرہ کی طرف دیکھو اور آپ (علیہ السلام) پر سلام کرنے کے لئے۔ پس وہ تھوڑی دیر نہ ٹھہرے تھے کہ حضرت عمر ؓ آگئے تو فرمایا اے عمر ! تجھے کیا ضرورت لائی ؟ کہا بھوک یا رسول اللہ ! (ﷺ ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا اور میں نے بھی اس کا بعض پایا تو وہ ابوہثیم بن تیھان انصاری کے گھر کی طرف چل پڑے اور ان کے بہت سارے کھجور کے درخت اور بکریاں تھیں اور ان کے خادم نہ تھے تو انہوں نے اس کو نہ پایا تو انہوں نے اس کی بیوی کو کہا تیرا خاوند کہاں ہے ؟ تو اس نے کہا وہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گیا ہے تو وہ تھوڑی دیر نہ ٹھہرے تھے کہ ابوہثیم پانی سے بھر ا مشکیزہ لے کر آگئے تو اس کو رکھ دیا، پھر آئے اور رسول اللہ ﷺ کو لپٹ گئے اور اپنے ماں وباپ کا فدیہ دینے لگا، پھر ان کو اپنے باغ میں لے گیا، پھر ان کے لئے چٹائی بچھا دی۔ پھر ایک درخت کی طرف گیا اور ایک گچھا لے کر آیا اور رکھ دیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا تونے ہمارے لئے اس کی کچی اور پکی کھجوریں الگ کیوں نہیں کردیں ؟ تو انہونے کہا اے اللہ کے رسول ! (ﷺ ) میں نے ارادہ کیا کہ تم اس کی کچی اور پکی کھجوروں کو چن لیں تو انہوں نے وہ کھجوریں کھائیں اور پانی پیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے تم قیامت کے دن سوال کئے جائو گے، ٹھنڈا سایہ ہے اور عمدہ پکی کھجوریں اور ٹھنڈا پانی ہے۔ پھر ابوہثیم گئے تاکہ ان کے لئے کچھ کھانا تیار کریں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ تو دودھ والی کو ذبح نہ کرنا تو ابوہثیم نے ان کے لئے بکری کا چھوٹا بچہ ذبح کیا پھر وہ ان کے پاس لائے تو انہوں نے کھایا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا تیرا کوئی خادم ہے ؟ انہوںں نے کہا نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پس جب ہمارے پاس کوئی بچہ آئے تو تو ہمارے پاس آنا تو نبی کریم ﷺ کے پاس دو غلام آئے، ان کے ساتھ تیسرا نہیں تھا تو آپ (علیہ السلام) کے پاس ابوہثیم آئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا تو ان دونوں میں سے ایک کو اختیار کرلے تو انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی ! (ﷺ ) آپ میرے لئے اختیار کریں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا بیشک جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے تو اس کو لے کیونکہ یہ نماز پڑھتا ہے اور اس بارے میں نیکی کی وصیت قبول کریں تو ابوہیثم اس کو لے کر اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس کو خبر دی رسول اللہ ﷺ کے قول کی تو اس کی بیوی نے کہا تو اس میں اس کو پہنچنے والا نہیں ہے جو رسول اللہ ﷺ نے کہا ہے مگر یہ کہ تو اس کو آزاد کردے تو ابوہثیم نے کہا یہ آزاد ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : بیشک ! اللہ تبارک وتعالیٰ نے کوئی نبی اور خلیفہ نہیں بھیجا مگر اس کے لئے دورازدار ہوتے ہیں ایک راز دار اس کو نیکی کا حکم کرتا ہے اور منکر سے روکتا ہے اور ایک راز دار اس کو فساد کی طرف مائل کرتا ہے اور جو شخص برے راز دار سے بچا دیا گیا، تحقیق وہ محفوظ کردیا گیا۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں ” النعیم “ بدن، کانوں، آنکھوں کا صحیح ہونا، اللہ تعالیٰ بندوں سے سوال کریں گے کن کاموں میں تم نے ان ک واستعمال کیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس بات کو ان سے زیادہ جانتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا قول ” ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسئولا “ عکرمہ فرماتے ہیں تندرستی اور فراغت کے بارے میں اور سعید بن جبیر (رح) فرماتے ہیں تندرستی اور فراغت اور مال کے بارے میں۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے میں ہیں، صحت اور فراغت ۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں یعنی اس کے بارے میں جو تم پر انعام کیا محمد ﷺ کے ذریعے اور ابوالعالیہ فرماتے ہیں اسلام اور سنتوں کے بارے میں اور حسین بن فضل فرماتے ہیں شرائع کی تخفیف اور قرآن مجید کے آسان کرنے کے بارے میں۔
Top