Tafseer-e-Baghwi - Hud : 56
اِنِّیْ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللّٰهِ رَبِّیْ وَ رَبِّكُمْ١ؕ مَا مِنْ دَآبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِهَا١ؕ اِنَّ رَبِّیْ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
اِنِّىْ : بیشک میں تَوَكَّلْتُ : میں نے بھروسہ کیا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر رَبِّيْ : میرا رب وَرَبِّكُمْ : اور تمہارا رب مَا : نہیں مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا اِلَّا : مگر هُوَ : وہ اٰخِذٌ : پکڑنے والا بِنَاصِيَتِهَا : اس کو چوٹی سے اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب عَلٰي : پر صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
میں خدا پر جو میرا اور تمہارا (سب کا) پروردگار ہے بھروسہ رکھتا ہوں (زمین پر) جو چلنے پھرنے والا ہے وہ اس کو چوٹی سے پکڑے ہوئے ہے۔ بیشک میرا پروردگار سیدھے راستے پر ہے۔
56۔ ” انی توکلت “ میں نے اعتماد کیا ” علی اللہ ربی و ربکم ما من دابۃ الا ھو آخذ بنا صیتھا “۔ ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ اس کو زندہ کرنے والا اور موت دینے والا ۔ فراء (رح) فرماتے ہیں کہ اس کا مالک اور اس پر قادر اور بعض علماء رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی پیشانی کو پکڑا ہوا ہے کہ وہ صرف اسی طرح متوجہ ہوتا ہے جو وہ اس کے دل میں ڈالتا ہے اور قتیبی (رح) فرماتے ہیں کہ اس پر غالب ہے اس لیے کہ جو کسی کی پیشانی پکڑ لے وہ اس پر غالب ہوجاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ناصیہ کو ذکر کیا ہے اس لیے کہ عرب جب کسی انسان کی ذلت کو بیان کرنا چاہتے ہیں تو ناصیۃ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ مثلاً کہتے ہیں ” ناصیۃ فلان بید فلان “ اور جب کسی انسان کو خوش ہو کر چھوڑنے کا ارادہ کرتے تھے تو اس کی پیشانی کے بال کاٹ دیتے تھے تا کہ وہ اس بات کو اس پر فخر سمجھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے عرف کے مطابق ان کو خطاب کیا ہے۔ ” ان ربی علی صراط مستقیم “ یعنی میرا رب اگرچہ ان پر قادر ہے لیکن ان پر ظلم نہیں کرتا اور احسان اور عدل والا معاملہ کرتا ہے۔ پس نیک کو اس کی نیکی اور برے کو اس کی برائی کا بدلہ دیتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ میرے رب کا دین سیدھے راستے پر ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہاں عبارت پوشیدہ ہے یعنی میرا رب تم کو ابھارتا ہے سیدھے راستے پر۔
Top