Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 59
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠ ۧ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْٓا
: ایمان لائے (ایمان والے)
اَطِيْعُوا
: اطاعت کرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَاَطِيْعُوا
: اور اطاعت کرو
الرَّسُوْلَ
: رسول
وَاُولِي الْاَمْرِ
: صاحب حکومت
مِنْكُمْ
: تم میں سے
فَاِنْ
: پھر اگر
تَنَازَعْتُمْ
: تم جھگڑ پڑو
فِيْ شَيْءٍ
: کسی بات میں
فَرُدُّوْهُ
: تو اس کو رجوع کرو
اِلَى اللّٰهِ
: اللہ کی طرف
وَالرَّسُوْلِ
: اور رسول
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ
: تم ایمان رکھتے ہو
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ
: اور روز
الْاٰخِرِ
: آخرت
ذٰلِكَ
: یہ
خَيْرٌ
: بہتر
وَّاَحْسَنُ
: اور بہت اچھا
تَاْوِيْلًا
: انجام
مومنو ! خدا اور اس کے رسول کی کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہے ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اسکے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو اور یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے
اولی الامر کی اطاعت کا بیان ارشاد باری ہے (ایا ایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ واطیعوالرسول واولی الامر منکم، اے ایمان لانے والو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرورسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں) ۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اولی الامر کی تاویل میں اختلاف رائے ہے حضرت جابر بن عبداللہ حضرت ابن عباس ، ایک روایت کے مطابق) حسن ، عطا، اور مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو فقہ یعنی دین کی سمجھ اور علم رکھنے والے ہوں۔ حضرت ابن عباس (ایک اور روایت کے مطابق) اور حضڑت ابوہریرہ سے مروی ہے اس سے مراد جہاد پر جانے والے فوجی دستوں کے سالار ہیں یہ بھی درست ہے کہ آیت میں یہ تمام لوگ مراد ہوں کیونکہ اولی الامر کا اسم ان سب کو شامل ہے۔ امرائے جیوش شکروں اور فوجی دستوں اور دشمن سے حرب وضرب کی تدابیر سے تعلق رکھنے والے معاملات کے نگران اور ذمہ دار ہوتے ہیں جبکہ علمائے شرعیت کی حفاظت اور معاملات وامور کے جواز اور عدم جواز کی پاسبانی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو امراء اور حکام کی اس وقت تک اطاعت کا حکم دیا گیا اور ان کی بات ماننے کے لیے کہا گیا جب تک وہ عدل وانصاف سے کام لیتے رہیں ، رہ گئے علماء تو وہ عادل ہوتے ہیں ان کی شخصیتیں پسندیدہ ہوتی ہیں اور جو کچھ وہ لوگوں کو بتاتے اور جو کچھ کرتے ہیں اس میں ان کی دین داری اور دیانت داری پر لوگوں کو پورا بھروسا ہوتا ہے۔ یہ بات اس قول باری کی نظیر ہے (فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون) اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھو) ایک قول یہ بھی ہے کہ اس جگہ اولی الامر سے امراء یعنی ارباب بست وکشاد مراد لینازیادہ واضح ہوگا، کیونکہ اس سے پہلے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کا دن گزرچکا ہے یہ ان لوگوں کو خطاب ہے جو احکام و قوانین کی تنقید کے ذمہ دار ہیں ، یعنی حکام اور قضاۃ اس پر اولوالامر کی اطاعت کے حکم کو عطف کیا گیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ اولوالامر سے مراد وہ ارباب بست کشاد ہیں جو لوگوں پر حکومت کرتے ہیں جب تک یہ انصاف پر قائم رہیں اور لوگوں کی نظروں میں پسندیدہ رہیں۔ ان کی اطاعت ضروری ہے لیکن اس میں کوئی امتناع نہیں کہ اولوالامر کے دونوں طبقوں یعنی فوجی دستوں کے امراء اور علماء کی اطاعت اور فرمانبرداری کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہو۔ کیونکہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کے حکم کا پہلے گزرجانا اس بات کی موجب نہیں ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کے حکم کو صرف امراء تک محدود کردیاجائے کسی اور کو اس میں شامل نہ کیا جائے جبکہ حضور سے یہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (من اطاع امیری فقد اطاعنی) جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے گویا میری اطاعت کی 9۔ زہری نے محمد بن جبیر بن مطعم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے منی میں خیف کے مقام پر کھڑے ہوکر فرمایا (نضر اللہ عبداسمع مقالتی فوعا ھاثم اداھا الی من لم یسمعھا فرب حامل فقہ لافقہ لہ ورب حامل فقہ الی من ھو افقہ منہ ثلاث لایغل علیھن قلب مومن اخلاص العمل اللہ تعالیٰ ، وقال بعضھم وطاعۃ ذوی الامر ، وقال بعضھم والنصیحۃ لاولی الامر ولزوم جماعۃ المسلمین فان دعوتھم تحیط من وراء ھم۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ اور سرسبز شاداب رکھے جس نے میری بات سنی اور اسے یاد رکھا اور پھر ان لوگوں تک پہنچادیا جوا سے سن نہ سکے تھے کیونکہ بعض دفعہ دین کی ایک بات کو دوسروں تک پہنچانے والاایسا ہوتا ہے جسے خود اس بات کی سمجھ نہیں ہوتی اور بعض دفعہ وہ اس بات کو ای سے انسان تک لے جاتا ہے جو اس سے بڑھ کر سمجھ دار ہوتا ہے۔ تین باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق ایمان والے کسی دل میں کوئی کھوٹ اور ملاوٹ نہیں ہوتی ، اول اللہ کے لیے اخلاص دوام اولی الامر خیرخواہی ، سوم مسلمانوں کی جماعت سے وابستگی اس لیے کہ مسلمانوں کی دعا انہیں اپنے حفاظتی گھیرے میں لیے ہونے ہوتی ہے۔ اس روایت میں زیادہ واضح بات یہی ہے کہ آپ نے اولوالامر سے امراء مراد لی ہے ، آیت زیر بحث کے ساتھ ہی) ارشاد باری ہے (فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول ، اگر کسی معاملے میں تمہارا اختلاف ہوجائے توا سے اللہ اور رسول کی طرف پھیردو) ۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اولوالامر سے مراد فقہاء ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے پھر اس قول باری میں اولوامر کی حکم دیا گیا ہے کہ وہ وہ متنازع فیہ معاملہ کو کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی طرف لوٹائیں اور اس کا حل ان دونوں ماخذ کی روشنی میں تلاش کریں کیونکہ عوام الناس اور غیر اہل علم طبقے کا یہ مرتبہ نہیں ہوسکتا جس کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ انہیں اس بات کا پتہ ہی نہیں ہوتا کہ متنازع فیہ معاملے کو کتاب وسنت کی روشنی میں کس طرح حل کیا جاتا ہے اور نئے مسائل کے لیے ان سے کسی طرح استدلال ہوتا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں علماء کو خطاب ہے۔ بعض اہل علم نے امامت کے متعلق روافض کے مذہب کا ابطال ، قول باری (واطیعوا اللہ واطیعوالرسول واولی الامر منکم) سے کیا ہے کیونکہ اولو الامر سے یاتوفقہاء ہوگی یا امراء یا امام جس کے یہ دعویدار ہیں۔ اگر اس سے فقہاء اور امزاء مراد ہوں توپھرامام مراد لینا باطل ہوجائے گا فقہاء اور امراء سے غلطی سرزد ہونے ، نسیان ، سہو، واقع ہونے اور تغیر و تبدیل کا امکان ہے لیکن ہمیں ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے یہ بات عقیدہ امامت کی بنیاد کو باطل کردیتی ہے کیونکہ روافض کے ہاں امام کے لیے معصوم ہوناشرط ہے یعنی اس سے غلطی سرزد نہیں ہوسکتی، نسیان ، سہو اورتغیر وتبدل سے وہ مبرا ہوتا ہے۔ آیت سے امام معصوم مراد لینا درست نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ خطاب میں یہ فرمایا (فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ، والرسول ) اگر کوئی امام ہوتا جس کی اطاعت فرض ہوتی تومتنازع فیہ معاملے میں اس کی طرف رجوع کرنا واجب ہوتا ہے اور تنازعہ اور اختلاف کو ختم کرانے میں وہی آکر سند کی حیثیت رکھتا ہے لیکن نئے پیدا شدہ مسائل میں اختلاف رائے کی صورت میں امام معصوم کی بجائے کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ ا نکاعقیدہ امامت باطل ہے۔ اس لیے کہ اگر کسی واجب الطاعۃ امام کا وجود ہوتا ہے تو قول باری کے الفاظ یہ ہوتے اے امام کی طرف لوٹاؤ، کیونکہ روافض کے نزدیک کتاب وسنت کی تاویلات اور معانی ومفاہیم کی تعیین میں امام کا قول ، قول فیصل ہوتا ہے۔ لیکن آیت میں جب سالاران عساکر اور فقہاء امت کی اطاعت اور نئے پیدا شدہ مسائل میں اختلاف رائے کو امام کی بجائے کتاب وسنت کی طرف راجع کرنے کا حکم دیا گیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مختلف فیہ مسائل کے احکام کے سلسلے میں امام معصوم واجب الطاعہ، نہیں ہے نیز یہ کہ ہر فقیہ کو مختلف فیہ مسئلے میں کتاب وسنت کے نظائر سے استدلال کرنے کی اجازت ہے ۔ اس باطل فرقے کا خیال یہ ہے کہ قول باری (والی الامر منکم) سے حضرت علی مراد ہیں۔ لیکن یہ تاویل سراسر غلط ہے کیونکہ اولی الامر گروہ اور جماعت کی شکل میں ہوں گے جبکہ حضرت علی ایک فرد واحد ہیں ، نیز حضور کے زمانے میں لوگوں کو اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا تھا اور اس زمانے میں حضرت علی امام نہیں تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوگئی کہ حضور کے زمانے میں امراء اور عمال اولی الامر تھے اور ان کی اطاعت بھی اس وقت تک لازم تھی جب تک وہ لوگ کو معصیت کے ارتکاب کا حکم نہ دیں، حضور کے زمانے کے بعد بھی امراء وعمال کی اطاعت اور ان کی اتباع کے لیے یہی شرط ہے کہ معصیت کے اندران کی پیروی اور اطاعت مسلمانوں پر لازم نہیں ہے۔ قول باری ہے (فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول) کے متعلق مجاہد، قتادہ ، میمون بن مہران اور سدی سے مروی ہے کہ اللہ اور رسول کی طرف لوٹانے سے مراد کتاب وسنت کی طرف لوٹانا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور کی زندگی کے اندر اورآ پ کی وفات کے بعد متنازع فیہ معاملے کو کتاب وسنت کی طرف لوٹانے کے وجوب مین عموم ہے۔ کتاب وسنت کی طرف لوٹانے کی دوصورتیں ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ مختلف فیہ معاملے کو اس حکم کی طرف لوٹایاجائے جو منصوص ہوا اور جس کا ذکر اس کے اسم اور معنی کے ساتھ ہوا ہو، دوسری صورت یہ ہے کہ معاملے کو اس حکم کی طرف لوٹایاجائے جو نصا تو ثابت نہ ہورہاہو لیکن اس پر دلالت موجود ہو اورقیاس اور نظائر کی مدد سے اس کا اعتبار کیا جاسکتا ہو۔ آیت میں وارد لفظ کا عموم ان دونوں صورتوں کو شامل ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جب کسی معاملے میں ہمارے درمیان اختلاف رائے پیدا ہوجائے توا سے کتاب وسنت کے منصوص حکم کی طرف لوٹایاجائے۔ اگر مختلف فیہ مسئلے کے متعلق ان دونوں ماخذوں میں کوئی حکم موجود ہو لیکن اگر کوئی منصوص حکم موجود نہ ہو تو اس کی نظیر کی طرف لوٹانا واجب ہوگا۔ کیونکہ ہمیں ہر حالت میں معاملے کو کتاب وسنت کی طرف لوٹانے کا حکم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کے لیے کسی کا ص حالت یا صورت کی تخصیص نہیں فرمائی، البتہ مضمون کلام اور اس کا ظاہراس بات کا مقتضی ہے کہ کتاب وسنت کی طرف ایسے مختلف فیہ معاملات ہی لوٹائے جاسکیں گے جس کے متعلق کوئی منصوص حکم موجود نہ ہوکیون کہ نص کی موجودگی میں کسی مسئلے کے اندراس حکم کے سوا کسی اور حکم کا احتمال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے مسئلے میں صحابہ کرام کے درمیان بھی اختلاف رائے نہیں ہوتا جب کہ عربی زبان کے وہ رموز آشنا تھے اور کلام میں احتمال اور غیر احتمال کی صورتوں سے پوری طرح واقف تھے، اس لیے آیت کا ظاہر اس بات کا مقتضی ہے کہ مختلف فیہ مسئلے کو کتاب وسنت مین پائے جانے والے اس کے نظائر کی طرف لوٹایاجائے۔ اگریہ کہاجائے کہ اس سے مراد ہے کہ اختلاف رائے ختم کرکے کتاب وسنت کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کردیاجائے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ مختلف فیہ مسئلے کو کتاب وسنت کی طرف لوٹانے کے سلسلے میں تمام مسلمانوں کو خطاب کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے (یا ایھا الذین امنواطیعواللہ واطیعوالرسول) اگر اس کی تاویل وہی ہے جس کا معترض نے ذکر کیا ہے تو آیت کے معنی یہ ہوں گے اے ایمان والو، کتاب اللہ اور اس کے نبی کی سنت کی پیروی کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو جبکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ جو شخص ایمان لے آتا ہے تو ایمان پر اس کے عقیدے کے اندر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کے التزام کا عقیدہ بھی موجود ہوتا ہے۔ اس لیے معترض کی تاویل کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ قول باری (فردوہ الی اللہ والرسول) کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہے گا، نیز آیت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ اورا سکے رسول کی اطاعت کا حکم گزر چکا ہے اس لیے قول باری (فردوہ الی اللہ والرسول) کو اسی مفہوم پر محمول کرنا درست نہیں ہوگاجس کا اظہار خطاب کے شروع میں ایک دفعہ ہوچکا ہے۔ بلکہ اس نئے مفہوم اور فائدے پر محمول کرنا ضروری ہوگا اور نیا مفہوم یہ ہے کہ ایسا مسئلہ جس کا مفہوم منصوص نہیں ہے اس میں اختلاف رائے کی صورت میں اسے منصوص علیہ مسئلے کی طرف لوٹایاجائے ۔ دوسرے الفاظ میں ہر مختلف فیہ مسئلے میں کتاب وسنت کے اندر اس کے نظائر سے حکم تلاش کیا جائے گا، نیز آیت میں لفظ کے عموم کے تحت یہ دلالت ہے کہ ہم تمام مختلف فیہ مسائل کو کتاب وسنت کی طرف لوٹانے کے پابند ہیں اور دلیل کے بغیر کسی مسئلے کو کتاب وسنت سے باہر نہیں لے جاسکتے ۔ اگریہ کہاجائے کہ حضور کی زندگی کے دوران کسی مسئلے میں اختلاف رائے کی صورت میں صحابہ کرام اس آیت کے حکم کے مخاطب تھے اور یہ بات معلوم ہے کہ حضو رکی موجودگی میں نئے پیدا ہونے والے مسائل کے احکام کے سلسلے میں ان حضرات کے لیے اپنی رائے سے کام لینے اور قیاس کرنے کی گنجائش نہیں تھی ، بلکہ ان پر حضور کی بات مان لینا، اور آپ کے حکم کی پیروی کرنا فرض تھا، قیاس کے ذریعے معاملے کو لوٹانے کے تکلف کی ضرورت نہیں تھی، اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ منصوص احکامات پر عمل کیا جائے اور غیر منصوص باتوں پر غور کرنے اور اجتہاد سے کام لینے کے تکلف سے گریز کیا جائے۔ اس اعتراض کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ یہ بات سرے سے غلط ہے کیونکہ حضور کی زندگی کے اندر بھی رائے سے کام لینے اور اجتہاد کر بروئے کار لانے نیز نئے پیدا شدہ مسائل کو ان کے منصوص نظائر کی طرف لوٹانے کا سارا عمل دوصورتوں میں جائز سمجھاجاتا تھا ایک صورت میں جواز نہیں قرار دیاجا تھا۔ جواز کی پہلی صورت وہ تھی جب صحابہ کرام حضور سے دور چلے جاتے جس طرح آپ نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن کی طرف روانہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا تھا اگر کوئی مقدمہ پیش ہوگا تو اس کا فیصلہ کس طرح کرو گے ؟ حضرت معاذ نے جواب میں عرض کیا تھا کہ میں کتاب اللہ کے مطابق ا سکافیصلہ کروں گا۔ آ پ نے فرمایا اگر کتاب اللہ میں وہ حکم نہ ملا توکیاکرو گے ؟ حضرت معاذ نے جواب دیا، میں اللہ کے نبی کی سنت کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا، آپ نے پھر پوچھا اگر اس کا حکم کتاب اللہ اور سنت رسول میں نہ ملاتوپھرکیاکرو گے ؟ حضرت معاذ نے جواب دیا، تو پھر اپنے غور وفکر اور سوچ بچار سے کام لوں گا، اور اس میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے حضرت معاذ کے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا (الحمدللہ الذی وفق رسول اللہ لمایرضی رسول اللہ ، للہ الحمد، کہ اس نے اللہ کے رسول کے رسول اور پیغامبر کو اس طریق کار کی توفیق عطا کی جس سے اللہ کا رسول راضی ہے) ۔ یہ ایک صورت تھی جس کے تحت حضور کی زندگی میں اجتہاد کرنے اور رائے سے کام لینے کا جواز تھا، دوسری صورت یہ تھی کہ حضور کسی صحابی کو اپنے سامنے ایک مسئلے پر غور کرنے اور نئے مسئلے کو اس کی نظیر کی طرف لوٹانے کا حکم دیتے تاکہ غور و فکر کرنے والے صاحب کی صلاحیتوں کا اندازہ لگ جائے اور یہ معلوم ہوجائے کہ یہ صاحب اس کام کے لیے موزوں ہیں یا نہیں ؟ اگر ان سے غلطی ہوتی اور غور و فکر کی راہ سے ہٹ جاتے تو آپ انہیں سیدھی راہ پر لگاتے اور انہیں ہدایات بھی دیتے۔ آپ صحابہ کرام کو اس بات کی تعلیم دیتے تھے کہ میرے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد نئے مسائل کے احکام معلوم کرنے کے لیے تم پر اجتہاد واجب ہے ، اس طرح حضور کی موجودگی میں اس طریقے سے اجتہاد کی گنجائش موجود رہی۔ جیسا کہ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت کی ہے انہیں اسلم بن سہل نے ، انہیں محمد بن خالد بن عبداللہ نے ، انہیں ان کے والد نے حفص بن سلیمان سے ، انہوں نے کثیر بن شنظیہ سے انہوں نے ابوالعالیہ سے انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر سے ایک دفعہ دو شخص حضور کی خدمت میں اپنا جھگڑا لے کر آئے آپ نے حضرت عقبہ سے فرمایا عقبہ ان کے جھگڑے کا فیصلہ کرو۔ حضرت عقبہ نے عرض کیا، حضور آپ کی موجودگی میں میں ان کے جھگڑے کا فیصلہ کروں۔ آپ نے فرمایا، فیصلہ کرو اگر درست فیصلہ کرو گے تو تمہیں دس نیکیاں ملیں گی اور اگر غلطی کرو گے تو ایک نیکی کے مستحق ٹھہرو گے۔ اس طرح حضور نے اپنے سامنے اس طریقے پر اجتہاد کرنے کی اباحت کردی جو ہم نے بیان کی ہے۔ ہمارے نزدیک حضور کا حضرت معاذ اور حضرت عقبہ کو اجتہاد کرنے کا حکم اس قول باری ، فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول) کی بنیاد پر صادر ہوا تھا اس لیے کہ اگر ہمیں حضور کی جانب سے کوئی ایسا حکم مل جائے جو اس مفہوم ومعنی کے موافق ہو جس کا قرآن میں ورود ہوچکا ہوتوہم ایسے حکم کو قرآن کے ذریعے دیاجانے والاحکم تصور کریں گے۔ حضور سے اس کی ابتدا نہیں سمجھیں گے۔ مثلا آپ کا چور کو قطع ید اور زانی کو کوڑوں کی سزا دینا اور اسی قسم کے دوسرے احکام اس لیے معترض کا یہ قول درست نہیں ہے کہ حضور کے زمانے میں نئے مسائل کے احکام معلوم کرنے کے لیے اجتہاد کی گنجائش نہیں تھی، اور مختلف فیہ معاملے کو کتاب وسنت کی طرف لوٹانا واجب تھا جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ اختلاف اور تنازعہ کو ترک کرکے اس چیز کو تسلیم کرلیناضروری تھا جو کتاب وسنت میں منصوص ہوتی۔ تیسری صورت جس کے تحت حضور کی زندگی میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہ تھی وہ یہ تھی کہ کوئی شخص آپ کی موجودگی میں کسی حکم کو جاری کرانے اور اپنی رائے پر ڈٹے رہنے کی نیت سے اجتہاد کرتا، اس طریقے پر اجتہاد نہ کرتا جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ حضور ﷺ کی پیروی واجب ہے قول باری ہے (واطیعواللہ واطیعوالرسول) اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اطاعت کرو) نیز فرمایا (وماارسلناک من رسول الا لیطاع باذن اللہ) ہم نے جو بھی رسول بھیجا وہ اس لیے بھیجا کہ اللہ کی اجازت سے اس کی پیروی کی جائے) ۔ نیز فرمایا (ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ، جو شخص رسول کی پیروی کرتا ہے وہ اللہ کی پیروی کرتا ہے ) نیز ارشاد ہوا (فل اوربک لایومنون حتی یحکمونک فیما شجر بینھم ثم لایجدون۔۔۔ تا۔۔۔۔۔ تسلیما۔ نہیں ، اے محمد تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلاف میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں، بلکہ سرتسلیم خم کرلیں) اللہ جل شانہ نے ان آیات کے ذریعے رسول اللہ کی اطاعت کے وجوب کی پوری طرح تاکید کردی اور یہ واضح کردیا کہ رسول اللہ کی طاعت اللہ کی اطاعت ہے جس سے یہ بات از خود معلوم ہوگئی کہ رسول اللہ کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے ۔ قول باری ہے (فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنہ، او یصیبھم عذاب الیم، ان لوگوں کو جو پیغمبر کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اس بات سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں کسی آزمائش کی گرفت میں نہ آجائیں یا کوئی دردناک عذاب انہیں آنہ لے) اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کے حکم کی مخالفت پر وعید سنائی اور آپ کے حکم کی مخالفت کرنے والے، آپ کے فیـصلے کو تسلم نہ کرنے والے اور اس میں شریک کرنے والے کو دائرہ ایمان سے خارج قرار دیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا (فل اوربک لایومنون حتی یحکموک فیماشجر بینھم۔۔ تا۔۔۔ آخر آیت۔ آیت میں لفظ حرج کے معنی شک کے بیان کیے گئے ہیں مجاہد سے اس معنی کی روایت کی گئی ہے۔ حرج کے اصل معنی تنگی کے ہیں، اس سے یہ مراد لینا بھی جائز ہے کہ حضور کے فیصلے کو اس طرح تسلیم کرلیاجائے کہ اس کے وجوب تسلیم کے بارے میں کوئی شک نہ ہو اورنہ دل میں اس سے کوئی تنگی پیدا ہوبل کہ کھلے دل کے ساتھ اور پورے یقین و بصیرت کے ساتھ اسے مان لیاجائے۔ آیت میں یہ دلالت موجود ہے کہ جس شخص نے اللہ یا اس کے رسول کے اوامر میں سے کسی امر اور حکم کو ٹھکرادیا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے خواہ س نے شک کی بنا پر اسے ٹھکرادیاہویاقبول نہ کرنے کی بنا پر تسلیم کرنے سے باز رہنے کی بنا پر اس نے ایسا کیا ہو۔ یہ بات صحابہ کرام کے اس موقف کی صحت کی موجب ہے جوان حضرات نے مانعین زکوۃ پر ارتداد کا حکم لگانے ، انہیں قتل کرنے اور ان کے اہل وعیال کو جنگی قیدی بنالینے کے بارے میں اختیار کیا تھا، اس لے کہ اللہ نے یہ فرمادیا کہ جو شخص نبی کریم کے فیصلے اور آپ کے احکامات کو تسلیم نہیں کرتا وہ اہل ایمان میں سے نہیں ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ جب رسول اللہ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے تو رسول اللہ کا امر اللہ کا امر کیوں نہیں ہے ، اس کے جواب میں کہاجائیگا کہ رسول اللہ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دینے کی وجہ سے یہ ہے کہ رسول اللہ کی اطاعت اس لحاظ سے اللہ کی اطاعت کے ساتھ موافقت ومطابقت رکھتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے اندر اللہ کے اوامر پیش نظر ہوتے ہیں۔ جہاں تک امر کا تعلق ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ کہنے والاکسی سے کہے، افعل (فلاں کام کرلے) اس مفہوم کے تحت یہ درست نہیں ہوگا کہ دوامر کرنے والوں سے ایک امر صادر ہو جس طرح دو کہنے والوں سے ایک قول اور دوکام کرنے والوں سے ایک کام صادر ہونادرست نہیں ہوتا۔
Top