Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 59
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے (ایمان والے) اَطِيْعُوا : اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو الرَّسُوْلَ : رسول وَاُولِي الْاَمْرِ : صاحب حکومت مِنْكُمْ : تم میں سے فَاِنْ : پھر اگر تَنَازَعْتُمْ : تم جھگڑ پڑو فِيْ شَيْءٍ : کسی بات میں فَرُدُّوْهُ : تو اس کو رجوع کرو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَالرَّسُوْلِ : اور رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ : تم ایمان رکھتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ : اور روز الْاٰخِرِ : آخرت ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر وَّاَحْسَنُ : اور بہت اچھا تَاْوِيْلًا : انجام
مومنو ! خدا اور اس کے رسول کی کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہے ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اسکے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو اور یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے
اولی الامر کی اطاعت کا بیان ارشاد باری ہے (ایا ایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ واطیعوالرسول واولی الامر منکم، اے ایمان لانے والو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرورسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں) ۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اولی الامر کی تاویل میں اختلاف رائے ہے حضرت جابر بن عبداللہ حضرت ابن عباس ، ایک روایت کے مطابق) حسن ، عطا، اور مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو فقہ یعنی دین کی سمجھ اور علم رکھنے والے ہوں۔ حضرت ابن عباس (ایک اور روایت کے مطابق) اور حضڑت ابوہریرہ سے مروی ہے اس سے مراد جہاد پر جانے والے فوجی دستوں کے سالار ہیں یہ بھی درست ہے کہ آیت میں یہ تمام لوگ مراد ہوں کیونکہ اولی الامر کا اسم ان سب کو شامل ہے۔ امرائے جیوش شکروں اور فوجی دستوں اور دشمن سے حرب وضرب کی تدابیر سے تعلق رکھنے والے معاملات کے نگران اور ذمہ دار ہوتے ہیں جبکہ علمائے شرعیت کی حفاظت اور معاملات وامور کے جواز اور عدم جواز کی پاسبانی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو امراء اور حکام کی اس وقت تک اطاعت کا حکم دیا گیا اور ان کی بات ماننے کے لیے کہا گیا جب تک وہ عدل وانصاف سے کام لیتے رہیں ، رہ گئے علماء تو وہ عادل ہوتے ہیں ان کی شخصیتیں پسندیدہ ہوتی ہیں اور جو کچھ وہ لوگوں کو بتاتے اور جو کچھ کرتے ہیں اس میں ان کی دین داری اور دیانت داری پر لوگوں کو پورا بھروسا ہوتا ہے۔ یہ بات اس قول باری کی نظیر ہے (فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون) اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھو) ایک قول یہ بھی ہے کہ اس جگہ اولی الامر سے امراء یعنی ارباب بست وکشاد مراد لینازیادہ واضح ہوگا، کیونکہ اس سے پہلے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کا دن گزرچکا ہے یہ ان لوگوں کو خطاب ہے جو احکام و قوانین کی تنقید کے ذمہ دار ہیں ، یعنی حکام اور قضاۃ اس پر اولوالامر کی اطاعت کے حکم کو عطف کیا گیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ اولوالامر سے مراد وہ ارباب بست کشاد ہیں جو لوگوں پر حکومت کرتے ہیں جب تک یہ انصاف پر قائم رہیں اور لوگوں کی نظروں میں پسندیدہ رہیں۔ ان کی اطاعت ضروری ہے لیکن اس میں کوئی امتناع نہیں کہ اولوالامر کے دونوں طبقوں یعنی فوجی دستوں کے امراء اور علماء کی اطاعت اور فرمانبرداری کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہو۔ کیونکہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کے حکم کا پہلے گزرجانا اس بات کی موجب نہیں ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کے حکم کو صرف امراء تک محدود کردیاجائے کسی اور کو اس میں شامل نہ کیا جائے جبکہ حضور سے یہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (من اطاع امیری فقد اطاعنی) جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے گویا میری اطاعت کی 9۔ زہری نے محمد بن جبیر بن مطعم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے منی میں خیف کے مقام پر کھڑے ہوکر فرمایا (نضر اللہ عبداسمع مقالتی فوعا ھاثم اداھا الی من لم یسمعھا فرب حامل فقہ لافقہ لہ ورب حامل فقہ الی من ھو افقہ منہ ثلاث لایغل علیھن قلب مومن اخلاص العمل اللہ تعالیٰ ، وقال بعضھم وطاعۃ ذوی الامر ، وقال بعضھم والنصیحۃ لاولی الامر ولزوم جماعۃ المسلمین فان دعوتھم تحیط من وراء ھم۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ اور سرسبز شاداب رکھے جس نے میری بات سنی اور اسے یاد رکھا اور پھر ان لوگوں تک پہنچادیا جوا سے سن نہ سکے تھے کیونکہ بعض دفعہ دین کی ایک بات کو دوسروں تک پہنچانے والاایسا ہوتا ہے جسے خود اس بات کی سمجھ نہیں ہوتی اور بعض دفعہ وہ اس بات کو ای سے انسان تک لے جاتا ہے جو اس سے بڑھ کر سمجھ دار ہوتا ہے۔ تین باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق ایمان والے کسی دل میں کوئی کھوٹ اور ملاوٹ نہیں ہوتی ، اول اللہ کے لیے اخلاص دوام اولی الامر خیرخواہی ، سوم مسلمانوں کی جماعت سے وابستگی اس لیے کہ مسلمانوں کی دعا انہیں اپنے حفاظتی گھیرے میں لیے ہونے ہوتی ہے۔ اس روایت میں زیادہ واضح بات یہی ہے کہ آپ نے اولوالامر سے امراء مراد لی ہے ، آیت زیر بحث کے ساتھ ہی) ارشاد باری ہے (فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول ، اگر کسی معاملے میں تمہارا اختلاف ہوجائے توا سے اللہ اور رسول کی طرف پھیردو) ۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اولوالامر سے مراد فقہاء ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے پھر اس قول باری میں اولوامر کی حکم دیا گیا ہے کہ وہ وہ متنازع فیہ معاملہ کو کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی طرف لوٹائیں اور اس کا حل ان دونوں ماخذ کی روشنی میں تلاش کریں کیونکہ عوام الناس اور غیر اہل علم طبقے کا یہ مرتبہ نہیں ہوسکتا جس کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ انہیں اس بات کا پتہ ہی نہیں ہوتا کہ متنازع فیہ معاملے کو کتاب وسنت کی روشنی میں کس طرح حل کیا جاتا ہے اور نئے مسائل کے لیے ان سے کسی طرح استدلال ہوتا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں علماء کو خطاب ہے۔ بعض اہل علم نے امامت کے متعلق روافض کے مذہب کا ابطال ، قول باری (واطیعوا اللہ واطیعوالرسول واولی الامر منکم) سے کیا ہے کیونکہ اولو الامر سے یاتوفقہاء ہوگی یا امراء یا امام جس کے یہ دعویدار ہیں۔ اگر اس سے فقہاء اور امزاء مراد ہوں توپھرامام مراد لینا باطل ہوجائے گا فقہاء اور امراء سے غلطی سرزد ہونے ، نسیان ، سہو، واقع ہونے اور تغیر و تبدیل کا امکان ہے لیکن ہمیں ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے یہ بات عقیدہ امامت کی بنیاد کو باطل کردیتی ہے کیونکہ روافض کے ہاں امام کے لیے معصوم ہوناشرط ہے یعنی اس سے غلطی سرزد نہیں ہوسکتی، نسیان ، سہو اورتغیر وتبدل سے وہ مبرا ہوتا ہے۔ آیت سے امام معصوم مراد لینا درست نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ خطاب میں یہ فرمایا (فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ، والرسول ) اگر کوئی امام ہوتا جس کی اطاعت فرض ہوتی تومتنازع فیہ معاملے میں اس کی طرف رجوع کرنا واجب ہوتا ہے اور تنازعہ اور اختلاف کو ختم کرانے میں وہی آکر سند کی حیثیت رکھتا ہے لیکن نئے پیدا شدہ مسائل میں اختلاف رائے کی صورت میں امام معصوم کی بجائے کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ ا نکاعقیدہ امامت باطل ہے۔ اس لیے کہ اگر کسی واجب الطاعۃ امام کا وجود ہوتا ہے تو قول باری کے الفاظ یہ ہوتے اے امام کی طرف لوٹاؤ، کیونکہ روافض کے نزدیک کتاب وسنت کی تاویلات اور معانی ومفاہیم کی تعیین میں امام کا قول ، قول فیصل ہوتا ہے۔ لیکن آیت میں جب سالاران عساکر اور فقہاء امت کی اطاعت اور نئے پیدا شدہ مسائل میں اختلاف رائے کو امام کی بجائے کتاب وسنت کی طرف راجع کرنے کا حکم دیا گیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مختلف فیہ مسائل کے احکام کے سلسلے میں امام معصوم واجب الطاعہ، نہیں ہے نیز یہ کہ ہر فقیہ کو مختلف فیہ مسئلے میں کتاب وسنت کے نظائر سے استدلال کرنے کی اجازت ہے ۔ اس باطل فرقے کا خیال یہ ہے کہ قول باری (والی الامر منکم) سے حضرت علی مراد ہیں۔ لیکن یہ تاویل سراسر غلط ہے کیونکہ اولی الامر گروہ اور جماعت کی شکل میں ہوں گے جبکہ حضرت علی ایک فرد واحد ہیں ، نیز حضور کے زمانے میں لوگوں کو اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا تھا اور اس زمانے میں حضرت علی امام نہیں تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوگئی کہ حضور کے زمانے میں امراء اور عمال اولی الامر تھے اور ان کی اطاعت بھی اس وقت تک لازم تھی جب تک وہ لوگ کو معصیت کے ارتکاب کا حکم نہ دیں، حضور کے زمانے کے بعد بھی امراء وعمال کی اطاعت اور ان کی اتباع کے لیے یہی شرط ہے کہ معصیت کے اندران کی پیروی اور اطاعت مسلمانوں پر لازم نہیں ہے۔ قول باری ہے (فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول) کے متعلق مجاہد، قتادہ ، میمون بن مہران اور سدی سے مروی ہے کہ اللہ اور رسول کی طرف لوٹانے سے مراد کتاب وسنت کی طرف لوٹانا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور کی زندگی کے اندر اورآ پ کی وفات کے بعد متنازع فیہ معاملے کو کتاب وسنت کی طرف لوٹانے کے وجوب مین عموم ہے۔ کتاب وسنت کی طرف لوٹانے کی دوصورتیں ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ مختلف فیہ معاملے کو اس حکم کی طرف لوٹایاجائے جو منصوص ہوا اور جس کا ذکر اس کے اسم اور معنی کے ساتھ ہوا ہو، دوسری صورت یہ ہے کہ معاملے کو اس حکم کی طرف لوٹایاجائے جو نصا تو ثابت نہ ہورہاہو لیکن اس پر دلالت موجود ہو اورقیاس اور نظائر کی مدد سے اس کا اعتبار کیا جاسکتا ہو۔ آیت میں وارد لفظ کا عموم ان دونوں صورتوں کو شامل ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جب کسی معاملے میں ہمارے درمیان اختلاف رائے پیدا ہوجائے توا سے کتاب وسنت کے منصوص حکم کی طرف لوٹایاجائے۔ اگر مختلف فیہ مسئلے کے متعلق ان دونوں ماخذوں میں کوئی حکم موجود ہو لیکن اگر کوئی منصوص حکم موجود نہ ہو تو اس کی نظیر کی طرف لوٹانا واجب ہوگا۔ کیونکہ ہمیں ہر حالت میں معاملے کو کتاب وسنت کی طرف لوٹانے کا حکم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کے لیے کسی کا ص حالت یا صورت کی تخصیص نہیں فرمائی، البتہ مضمون کلام اور اس کا ظاہراس بات کا مقتضی ہے کہ کتاب وسنت کی طرف ایسے مختلف فیہ معاملات ہی لوٹائے جاسکیں گے جس کے متعلق کوئی منصوص حکم موجود نہ ہوکیون کہ نص کی موجودگی میں کسی مسئلے کے اندراس حکم کے سوا کسی اور حکم کا احتمال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے مسئلے میں صحابہ کرام کے درمیان بھی اختلاف رائے نہیں ہوتا جب کہ عربی زبان کے وہ رموز آشنا تھے اور کلام میں احتمال اور غیر احتمال کی صورتوں سے پوری طرح واقف تھے، اس لیے آیت کا ظاہر اس بات کا مقتضی ہے کہ مختلف فیہ مسئلے کو کتاب وسنت مین پائے جانے والے اس کے نظائر کی طرف لوٹایاجائے۔ اگریہ کہاجائے کہ اس سے مراد ہے کہ اختلاف رائے ختم کرکے کتاب وسنت کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کردیاجائے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ مختلف فیہ مسئلے کو کتاب وسنت کی طرف لوٹانے کے سلسلے میں تمام مسلمانوں کو خطاب کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے (یا ایھا الذین امنواطیعواللہ واطیعوالرسول) اگر اس کی تاویل وہی ہے جس کا معترض نے ذکر کیا ہے تو آیت کے معنی یہ ہوں گے اے ایمان والو، کتاب اللہ اور اس کے نبی کی سنت کی پیروی کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو جبکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ جو شخص ایمان لے آتا ہے تو ایمان پر اس کے عقیدے کے اندر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کے التزام کا عقیدہ بھی موجود ہوتا ہے۔ اس لیے معترض کی تاویل کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ قول باری (فردوہ الی اللہ والرسول) کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہے گا، نیز آیت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ اورا سکے رسول کی اطاعت کا حکم گزر چکا ہے اس لیے قول باری (فردوہ الی اللہ والرسول) کو اسی مفہوم پر محمول کرنا درست نہیں ہوگاجس کا اظہار خطاب کے شروع میں ایک دفعہ ہوچکا ہے۔ بلکہ اس نئے مفہوم اور فائدے پر محمول کرنا ضروری ہوگا اور نیا مفہوم یہ ہے کہ ایسا مسئلہ جس کا مفہوم منصوص نہیں ہے اس میں اختلاف رائے کی صورت میں اسے منصوص علیہ مسئلے کی طرف لوٹایاجائے ۔ دوسرے الفاظ میں ہر مختلف فیہ مسئلے میں کتاب وسنت کے اندر اس کے نظائر سے حکم تلاش کیا جائے گا، نیز آیت میں لفظ کے عموم کے تحت یہ دلالت ہے کہ ہم تمام مختلف فیہ مسائل کو کتاب وسنت کی طرف لوٹانے کے پابند ہیں اور دلیل کے بغیر کسی مسئلے کو کتاب وسنت سے باہر نہیں لے جاسکتے ۔ اگریہ کہاجائے کہ حضور کی زندگی کے دوران کسی مسئلے میں اختلاف رائے کی صورت میں صحابہ کرام اس آیت کے حکم کے مخاطب تھے اور یہ بات معلوم ہے کہ حضو رکی موجودگی میں نئے پیدا ہونے والے مسائل کے احکام کے سلسلے میں ان حضرات کے لیے اپنی رائے سے کام لینے اور قیاس کرنے کی گنجائش نہیں تھی ، بلکہ ان پر حضور کی بات مان لینا، اور آپ کے حکم کی پیروی کرنا فرض تھا، قیاس کے ذریعے معاملے کو لوٹانے کے تکلف کی ضرورت نہیں تھی، اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ منصوص احکامات پر عمل کیا جائے اور غیر منصوص باتوں پر غور کرنے اور اجتہاد سے کام لینے کے تکلف سے گریز کیا جائے۔ اس اعتراض کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ یہ بات سرے سے غلط ہے کیونکہ حضور کی زندگی کے اندر بھی رائے سے کام لینے اور اجتہاد کر بروئے کار لانے نیز نئے پیدا شدہ مسائل کو ان کے منصوص نظائر کی طرف لوٹانے کا سارا عمل دوصورتوں میں جائز سمجھاجاتا تھا ایک صورت میں جواز نہیں قرار دیاجا تھا۔ جواز کی پہلی صورت وہ تھی جب صحابہ کرام حضور سے دور چلے جاتے جس طرح آپ نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن کی طرف روانہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا تھا اگر کوئی مقدمہ پیش ہوگا تو اس کا فیصلہ کس طرح کرو گے ؟ حضرت معاذ نے جواب میں عرض کیا تھا کہ میں کتاب اللہ کے مطابق ا سکافیصلہ کروں گا۔ آ پ نے فرمایا اگر کتاب اللہ میں وہ حکم نہ ملا توکیاکرو گے ؟ حضرت معاذ نے جواب دیا، میں اللہ کے نبی کی سنت کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا، آپ نے پھر پوچھا اگر اس کا حکم کتاب اللہ اور سنت رسول میں نہ ملاتوپھرکیاکرو گے ؟ حضرت معاذ نے جواب دیا، تو پھر اپنے غور وفکر اور سوچ بچار سے کام لوں گا، اور اس میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے حضرت معاذ کے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا (الحمدللہ الذی وفق رسول اللہ لمایرضی رسول اللہ ، للہ الحمد، کہ اس نے اللہ کے رسول کے رسول اور پیغامبر کو اس طریق کار کی توفیق عطا کی جس سے اللہ کا رسول راضی ہے) ۔ یہ ایک صورت تھی جس کے تحت حضور کی زندگی میں اجتہاد کرنے اور رائے سے کام لینے کا جواز تھا، دوسری صورت یہ تھی کہ حضور کسی صحابی کو اپنے سامنے ایک مسئلے پر غور کرنے اور نئے مسئلے کو اس کی نظیر کی طرف لوٹانے کا حکم دیتے تاکہ غور و فکر کرنے والے صاحب کی صلاحیتوں کا اندازہ لگ جائے اور یہ معلوم ہوجائے کہ یہ صاحب اس کام کے لیے موزوں ہیں یا نہیں ؟ اگر ان سے غلطی ہوتی اور غور و فکر کی راہ سے ہٹ جاتے تو آپ انہیں سیدھی راہ پر لگاتے اور انہیں ہدایات بھی دیتے۔ آپ صحابہ کرام کو اس بات کی تعلیم دیتے تھے کہ میرے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد نئے مسائل کے احکام معلوم کرنے کے لیے تم پر اجتہاد واجب ہے ، اس طرح حضور کی موجودگی میں اس طریقے سے اجتہاد کی گنجائش موجود رہی۔ جیسا کہ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت کی ہے انہیں اسلم بن سہل نے ، انہیں محمد بن خالد بن عبداللہ نے ، انہیں ان کے والد نے حفص بن سلیمان سے ، انہوں نے کثیر بن شنظیہ سے انہوں نے ابوالعالیہ سے انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر سے ایک دفعہ دو شخص حضور کی خدمت میں اپنا جھگڑا لے کر آئے آپ نے حضرت عقبہ سے فرمایا عقبہ ان کے جھگڑے کا فیصلہ کرو۔ حضرت عقبہ نے عرض کیا، حضور آپ کی موجودگی میں میں ان کے جھگڑے کا فیصلہ کروں۔ آپ نے فرمایا، فیصلہ کرو اگر درست فیصلہ کرو گے تو تمہیں دس نیکیاں ملیں گی اور اگر غلطی کرو گے تو ایک نیکی کے مستحق ٹھہرو گے۔ اس طرح حضور نے اپنے سامنے اس طریقے پر اجتہاد کرنے کی اباحت کردی جو ہم نے بیان کی ہے۔ ہمارے نزدیک حضور کا حضرت معاذ اور حضرت عقبہ کو اجتہاد کرنے کا حکم اس قول باری ، فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول) کی بنیاد پر صادر ہوا تھا اس لیے کہ اگر ہمیں حضور کی جانب سے کوئی ایسا حکم مل جائے جو اس مفہوم ومعنی کے موافق ہو جس کا قرآن میں ورود ہوچکا ہوتوہم ایسے حکم کو قرآن کے ذریعے دیاجانے والاحکم تصور کریں گے۔ حضور سے اس کی ابتدا نہیں سمجھیں گے۔ مثلا آپ کا چور کو قطع ید اور زانی کو کوڑوں کی سزا دینا اور اسی قسم کے دوسرے احکام اس لیے معترض کا یہ قول درست نہیں ہے کہ حضور کے زمانے میں نئے مسائل کے احکام معلوم کرنے کے لیے اجتہاد کی گنجائش نہیں تھی، اور مختلف فیہ معاملے کو کتاب وسنت کی طرف لوٹانا واجب تھا جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ اختلاف اور تنازعہ کو ترک کرکے اس چیز کو تسلیم کرلیناضروری تھا جو کتاب وسنت میں منصوص ہوتی۔ تیسری صورت جس کے تحت حضور کی زندگی میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہ تھی وہ یہ تھی کہ کوئی شخص آپ کی موجودگی میں کسی حکم کو جاری کرانے اور اپنی رائے پر ڈٹے رہنے کی نیت سے اجتہاد کرتا، اس طریقے پر اجتہاد نہ کرتا جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ حضور ﷺ کی پیروی واجب ہے قول باری ہے (واطیعواللہ واطیعوالرسول) اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اطاعت کرو) نیز فرمایا (وماارسلناک من رسول الا لیطاع باذن اللہ) ہم نے جو بھی رسول بھیجا وہ اس لیے بھیجا کہ اللہ کی اجازت سے اس کی پیروی کی جائے) ۔ نیز فرمایا (ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ، جو شخص رسول کی پیروی کرتا ہے وہ اللہ کی پیروی کرتا ہے ) نیز ارشاد ہوا (فل اوربک لایومنون حتی یحکمونک فیما شجر بینھم ثم لایجدون۔۔۔ تا۔۔۔۔۔ تسلیما۔ نہیں ، اے محمد تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلاف میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں، بلکہ سرتسلیم خم کرلیں) اللہ جل شانہ نے ان آیات کے ذریعے رسول اللہ کی اطاعت کے وجوب کی پوری طرح تاکید کردی اور یہ واضح کردیا کہ رسول اللہ کی طاعت اللہ کی اطاعت ہے جس سے یہ بات از خود معلوم ہوگئی کہ رسول اللہ کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے ۔ قول باری ہے (فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنہ، او یصیبھم عذاب الیم، ان لوگوں کو جو پیغمبر کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اس بات سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں کسی آزمائش کی گرفت میں نہ آجائیں یا کوئی دردناک عذاب انہیں آنہ لے) اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کے حکم کی مخالفت پر وعید سنائی اور آپ کے حکم کی مخالفت کرنے والے، آپ کے فیـصلے کو تسلم نہ کرنے والے اور اس میں شریک کرنے والے کو دائرہ ایمان سے خارج قرار دیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا (فل اوربک لایومنون حتی یحکموک فیماشجر بینھم۔۔ تا۔۔۔ آخر آیت۔ آیت میں لفظ حرج کے معنی شک کے بیان کیے گئے ہیں مجاہد سے اس معنی کی روایت کی گئی ہے۔ حرج کے اصل معنی تنگی کے ہیں، اس سے یہ مراد لینا بھی جائز ہے کہ حضور کے فیصلے کو اس طرح تسلیم کرلیاجائے کہ اس کے وجوب تسلیم کے بارے میں کوئی شک نہ ہو اورنہ دل میں اس سے کوئی تنگی پیدا ہوبل کہ کھلے دل کے ساتھ اور پورے یقین و بصیرت کے ساتھ اسے مان لیاجائے۔ آیت میں یہ دلالت موجود ہے کہ جس شخص نے اللہ یا اس کے رسول کے اوامر میں سے کسی امر اور حکم کو ٹھکرادیا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے خواہ س نے شک کی بنا پر اسے ٹھکرادیاہویاقبول نہ کرنے کی بنا پر تسلیم کرنے سے باز رہنے کی بنا پر اس نے ایسا کیا ہو۔ یہ بات صحابہ کرام کے اس موقف کی صحت کی موجب ہے جوان حضرات نے مانعین زکوۃ پر ارتداد کا حکم لگانے ، انہیں قتل کرنے اور ان کے اہل وعیال کو جنگی قیدی بنالینے کے بارے میں اختیار کیا تھا، اس لے کہ اللہ نے یہ فرمادیا کہ جو شخص نبی کریم کے فیصلے اور آپ کے احکامات کو تسلیم نہیں کرتا وہ اہل ایمان میں سے نہیں ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ جب رسول اللہ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے تو رسول اللہ کا امر اللہ کا امر کیوں نہیں ہے ، اس کے جواب میں کہاجائیگا کہ رسول اللہ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دینے کی وجہ سے یہ ہے کہ رسول اللہ کی اطاعت اس لحاظ سے اللہ کی اطاعت کے ساتھ موافقت ومطابقت رکھتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے اندر اللہ کے اوامر پیش نظر ہوتے ہیں۔ جہاں تک امر کا تعلق ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ کہنے والاکسی سے کہے، افعل (فلاں کام کرلے) اس مفہوم کے تحت یہ درست نہیں ہوگا کہ دوامر کرنے والوں سے ایک امر صادر ہو جس طرح دو کہنے والوں سے ایک قول اور دوکام کرنے والوں سے ایک کام صادر ہونادرست نہیں ہوتا۔
Top