Tafseer-e-Baghwi - Ar-Ra'd : 22
وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو صَبَرُوا : انہوں نے صبر کیا ابْتِغَآءَ : حاصل کرنے کے لیے وَجْهِ : خوشی رَبِّهِمْ : اپنا رب وَاَقَامُوا : اور انہوں نے قائم کی الصَّلٰوةَ : نماز وَاَنْفَقُوْا : اور خرچ کیا مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : پوشیدہ وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر وَّيَدْرَءُوْنَ : اور ٹال دیتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : نیکی سے السَّيِّئَةَ : برائی اُولٰٓئِكَ : وہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عُقْبَى الدَّارِ : آخرت کا گھر
اور جو پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے (مصائب پر) صبر کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور جو (مال) ہم نے انکو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں اور نیکی سے برائی کو دور کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔
تفسیر 22۔” والذین صبروا “ اللہ تعالیٰ کی طاعت میں ثابت قدم رہے۔ ابن عباس ؓ کا قول ہے اللہ تعالیٰ نے جو احکام ان کے سپرد کیے ان پر ثابت قدم رہے۔ عطاء کا قول ہے کہ مصائب و شدائد پر صابر رہے اور بعض علماء نے کہا کہ صبر سے مراد نفسانی خواہشات سے اجتناب کرنا ۔ ” ابتغاء وجہ ربھم “ اللہ کی تعظیم کی وجہ سے ان بتوں کی مخالفت کرے۔” واقاموالصلوٰۃ وانفقوا مما رزقنھم سرا وعلانیۃ “ وہ زکوٰۃ ادا کرتے تھے۔ گناہ اگر ہوجائے تو اس کے بعد نیکی کرو کیونکہ نیکی گناہوں کو مٹا دیتی ہے ” ویدرون بالحسنۃ السیئۃ “ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نیک اعمال برے اعمال کو مٹا دیتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا فرمان ” ان الحسنات یذھبن السیئات “ کا معنی یہی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی برا عمل کرے تو اسے چاہیے کہ اس کے ساتھ نیک عمل بھی کرے تا کہ اس کی نیکی اس کی برائی کو مٹا دے ۔ اگر برائی چھپ کر کی ہے تو نیکی ویسے کرے اور اگر برائی علانیہ کی ہے تو نیکی بھی اعلانیہ کرو۔ عقبہ بن عامر سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص گناہوں کے بعد نیکیاں کرلیتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے کوئی اتنی تنگ زرہ پہن رکھی ہو جس سے اس کا دم گھٹ رہا ہو ، پھر اس نے ایک نیکی کرلی تو ایک کڑی ٹوٹ گئی ، پھر دوسری کڑی ٹوٹ گئی یہاں تک کہ وہ زمین پر گر پڑی ۔ ابن کیسان کا قول ہے آیت کا معنی ہے کہ وہ توبہ کے ذریعہ گناہ کو معاف کردیتے ہیں ۔ بعض نے کہا کہ شر کو شر کے ساتھ بدلہ نہ دو بلکہ شر کو خیر کے ساتھ بدلہ دو ۔ قتیبی (رح) کا قول ہے کہ جب برائی کرو تو اس کے بدلے میں نیکی کرو۔ قتادہ (رح) کا قول ہے کہ ان کو نیکی کے ساتھ بدلہ دو ، اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاما ً “ حسن بصری (رح) کا قول ہے کہ جب کوئی تمہیں کسی چیز سے محروم کر دے تم اس کو عطا کرو اور جو تمہارے اوپر ظلم کرے تو تم ان کو معاف کر دو اور کوئی شخص تمہارے ساتھ قطع رحمی کرے تم اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ عبد اللہ بن مبارک کا قول ہے :” اولئک لھم عقبی الدار “ اس سے مراد جنت ہے یعنی اللہ ان کو آخرت میں ثواب عطا کرتا ہے، پھر اس کو بیان فرمایا۔
Top