Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 86
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور انسان جس طرح (جلدی سے) بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے اور انسان جلد باز (پیدا ہوا) ہے
11۔” ویدع الانسان “ یہاں لفظوں میں وائو کو حذف کردیا گیا ۔ دو ساکن جمع ہوگئے ، وائو ساکن اور لام تو پہلے ساکن کو حذف کردیا ، جیسا کہ اس آیت میں ہے۔” سندع الزبانیۃ “ اور اسی طرح خط سے ہم نے اس کو حذف کردیا ۔” یدعوا الانسان “ سے مراد اپنے مال اپنی اولاد اور اپنے نفس کے لیے دعا کرتا ہے۔ ” بالشر “ اور کبھی انسان غصہ سے یہ بددعائیں اپنی زبان سے نکالنا شروع کردیتا ہے کہ اے اللہ ان پر لعنت کر اور ان کو ہلاک کر اور ان جیسی باتیں۔” دعاء بالخیر “ اپنے رب سے دعا کرتا ہے کہ اللہ نے اس کو نعمت اور عافیت بخشی ہے۔ اگر اس کی اپنی نفس کے لیے جو دعائیں کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس کو قبول کر دے تو وہ ہلاک ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس دعا کو قبول نہیں کرتا ۔” وکان الانسان عجولا ً “ جو خیال دل میں آتا ہے چاہتا ہے کہ وہ فوراًہو جائے انجام پر غور نہیں کرتا کہ اس کی دعا کو قبول کردیا جائے تو اس کو کتنا نقصان اٹھاناپڑے گا ۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ صبر نہیں کرتا نہ اس کو تکلیف میں قرار آتا ہے اور نہ ہی سکھ میں۔
Top