بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 1
وَ لَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَیْنَا وَكِیْلًاۙ
وَلَئِنْ : اور اگر شِئْنَا : ہم چاہیں لَنَذْهَبَنَّ : تو البتہ ہم لے جائیں بِالَّذِيْٓ : وہ جو کہ اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاؤ لَكَ : اپنے واسطے بِهٖ : اس کے لیے عَلَيْنَا : ہمارے مقابلہ) پر وَكِيْلًا : کوئی مددگار
اور قسم ہے ستارے (کے رب ) کی جب وہ غروب ہوا
ستاروں کے رب کی قسم جب وہ غروب ہوں 1 ؎ (النجم) اسم جنس ہے اور جنس میں واحد جمع کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ گزشتہ سورت کے خاتمہ پر (ادبار النجوم) ارشاد فرمایا گیا تھا کہ ستاروں کے غروب ہونے کے بعد اور وہاں عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ وہ وقت ہے جب صلوٰۃ فجر ادا کی جاتی ہے یعنی صبح کی نماز با جماعت ادا کی جاتی ہے۔ اس جگہ (النجم) سے مراد مفسرین نے زیادہ تر ” ایک ستارہ “ لی ہے اور پھر اس ستارہ کے تعین میں اختلاف کیا ہے۔ ایک گروہ نے اس ستارہ سے مراد ثریا جس کو پروین کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور ہماری پنجابی زبان میں اس کو ” کھتی “ کے نام سے موسوم کرتے ہیں جو چند ستاروں کا ایک جھنڈ سا آسمان پر نظر آتا ہے اور بعض نے اس ستارہ سے مراد ” زہرہ “ ستارہ لیا ہے اور غالباً اس کو عربی زبان میں ” الشعریٰ “ بھی کہتے ہیں جس کا ذکر آگے اسی سورت کی آیت 49 میں آ رہا ہے اور چونکہ (النجم) کا لفظ اسم جنس کے طور پر قرآن کریم میں عام استعمال ہوا ہے اس لئے اس جگہ یہی مراد لیا ہے اور بعض مفسرین نے بھی اس کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ چناچہ قرآن کریم میں دوسری جگہ (النجم ھم یھتدون) (16 : 16) ” اور ستاروں سے وہ راہنمائی حاصل کرتے ہیں “ (والنجم والشجر یسجدن) (55 : 6) ” ستارے اور درخت سجدہ کرتے ہیں “ اس جگہ (النجم ) سے مراد زمین کی روئیدگی بھی لی گئی ہے۔ (النجم الثاقب) ۔ 86 : 3) جھکنے والے ستارے “۔ زیر نظر آیت میں فرمایا گیا ہے۔ (والنجم اذا ھری) اس لئے جان لینا چاہئے کہ (ھوی) کے معنی کیا ہیں ؟ (ھوی) کے معنی غائب ہوگیا یا جب غائب ہونے لگے یا جب غائب ہوجائے۔ (ھوی) ماضی واحد مذکر غائب۔ گر پڑا یا غائب ہوگیا۔ نفسنای خواہش پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اس کی جمع اھواء ہے یعنی خواہشیں۔ (ھوی) کا لفظ ستاروں کے افق پر غائب ہونے پر بولا جاتا ہے اور یہی معنی اس جگہ مراد ہیں اور قسم کے متعلق قبل ازیں بہت دفعہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہ شہادت کے طور پر ذکر کی جاتی ہے جس سے مقصد بات کو پکا کرنا اور یقین بنانا عام دستور ہے اور ہر زبان اور ہر قوم میں اس کا استعمال اپنی اپنی زبان کے مطابق ہوتا ہے اور اس سے آنے والی بات کا یقین دلانا مقصود ہے کہ جو کوئی بات اس کے بعد بیان کی جانے والی ہے وہ بہت یقینی بات ہے۔
Top