Urwatul-Wusqaa - Maryam : 47
قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَ١ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا
قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكَ : تجھ پر سَاَسْتَغْفِرُ : میں ابھی بخشش مانگوں گا لَكَ : تیرے لیے رَبِّيْ : اپنا رب اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِيْ : مجھ پر حَفِيًّا : مہربان
ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اچھا ، میرا سلام قبول ہو ، میں اپنے پروردگار سے تیری بخشش کی دعا کروں گا ، وہ مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ کی باتیں سنیں تو علیحدہ ہونے کا تہیہ کرلیا : 47۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے یہ واقعات ایک دو دن میں نہیں ہوئے اور نہ ہی ایسے واقعات ایک دو دن میں رونما ہوسکتے ہیں ، ان حالات میں برسوں لگے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) ابھی نبی مبعوث نہیں ہوئے تھے کہ آپ نے مواعظ کا سلسلہ شروع کیا اور پھر نبوت ملی اور باقاعدہ پیغام الہی پہنچانا شروع کیا پھر اس میں برسوں لگے اور آہستہ آہستہ نوبت اس تک پہنچ گئی کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) بحکم الہی اس علاقہ سے ہجرت کرکے کسی دوسرے علاقہ کی طرف نکل جائیں جہاں آپ کی دعوت کو پھیلنے کا موقعہ ملے اور یہ اس لئے ضروری ہوا کہ اب حالات یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ علاقہ چھوڑنا ضروری ہوگیا یقینا اس دوران باپ سے مناظرے ہوے چکے تھے اور قوم کے بت خانہ کو بھی آپ تہس نہس کرچکے تھے ، قوم کے سارے وڈیروں سے بھی آپ کی گفتگو تلخی کی حد تک پہنچ چکی تھی مختصر یہ کہ ہجرت کے لئے خاصے اسباب اکٹھے ہوچکے تھے اور اب حکم الہی پہنچ چکا تھا کہ آپ اس علاقہ کو خیر باد کہہ دیں انجام کار وہ دن آیا تو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ سے آخری دفعہ مخاطب ہو کر فرمایا ابو جان ! اب میری طرف سے آپ کو الوداعی سلام عرض ! اب آئندہ شاید آپ کو اپنے گستاخ بیٹے کا چہرہ نظر نہ آئے ‘ نہ آپ کے ہاتھ پتھر اٹھا کر بیٹے پر پھے نکن کے لئے تیار ہوں اور نہ بیٹا اپنے باپ کو شیطان کے نرغے میں دیکھ کر جل بھن جائے ، میں جب تک اللہ نے چاہا آپ کے لئے اللہ سے ہدایت کی دعا جاری رکھوں گا اور آپ کے رودررو آپ کو کچھ نہ کہہ سکوں گا شاید میرا رب اگر چاہے تو میری اس دعا کو قبولیت عطا فرما دے اور آپ کے دل کو اپنی طرف پھیر دے اور ممکن ہے میرے جانے کے بعد ہی آپ کو سمجھ آجائے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے آخری کلام باپ سے کیا اور وہاں سے چل دیئے ۔
Top