Tafseer-e-Baghwi - Maryam : 59
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ
فَخَلَفَ : پھر جانشین ہوئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد خَلْفٌ : چند جانشین (ناخلف) اَضَاعُوا : انہوں نے گنوادی الصَّلٰوةَ : نماز وَاتَّبَعُوا : اور پیروی کی الشَّهَوٰتِ : خواہشات فَسَوْفَ : پس عنقریب يَلْقَوْنَ : انہیں ملے گی غَيًّا : گمراہی
پھر ان کے بعد چند ناخلف ان کے جانشنیں ہوئے جنہوں نے نماز کو (چھوڑ دیا گو یا اسے) کھو دیا اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے سو عنقریب ان کو گمراہی (کی سزا) ملے گی
تفسیر۔ 59۔ فخلف من بعدھم خلف، پھر ان مذکورہ انبیاء کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوں گے برے لوگ آئیں گے ، خلف، لام کے فتحہ کے ساتھ اچھا جانشین اور لام کے جزم کے ساتھ براجانشین مراد ہے۔ سدی کا قول ہے کہ اس سے مراد یہودی ہیں ۔ مجاہد اور قتادہ کا بیان ہے کہ اس امت کے لوگ ہیں۔ مجاہد اور قتادہ کا بیان ہے کہ اس امت کے لوگ ہیں۔ اضاعو الصلوۃ، ، جنہوں نے فرض نماز چھوڑ دی تھی ابن مسعود نے اس کا ترجمہ کیا ہے نماز وقت کو ٹال کرپڑھی، سعید بن مسیب نے اس کی تشریح میں فرمایا کہ ظہر کی نماز عصر کی نماز آنے سے پہلے نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب سورج غروب ہونے لگے۔ واتبعوا الشھوات، ، اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور شراب پی۔ انہوں نے اپنی خواہش نفس کا اتباع کیا اور اللہ کی اطاعت سے منہ موڑا، مجاہد کا قول ہے کہ اس قوم کا ظہور آخری زمانہ میں ہوگا۔ غیاکی تفسیر۔ فسوف یلقون غیا، ، وہب بن منبہ کا قول ہے کہ غی جہنم کے اندر ایک بہت گہری وادی کا نام ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے فرمایا کہ جہنم کے اندر ایک ایسی وادی ہے کہ جہنم بھی اس کی گرمی سے پناہ مانگتی ہے۔ عادی زناکاروں کے لیے ، دوامی شراب خوروں کے لیے اور ان سود خوروں کے لیے جو سود خوری سے باز نہیں آتے اور ماں باپ کی نافرمانی کرنے والوں کے لیے اور جھوٹے گواہوں کے لیے اس کو تیار کیا گیا ہے۔ ابن مردویہ نے یہ حدیث حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے مرفوعا نقل کی ہے۔ بغوی نے عطاء کا قول نقل کیا ہے کہ غی جہنم کے اندر ایک وادی ہے جس کے اندر بجائے پانی کے پیپ اور خون اور بہتا ہے ۔ کعب نے کہا غی جہنم کے اندر ایک بہت ہی گہری اور گرم ترین وادی ہے جس کے اندر ایک کنواں ہے، کنویں کو یہیم کہاجاتا ہے۔ دوزخ کی آگ جب کچھ بجھنے لگتی ہے تو اس کنویں کا منہ کھول دیاجاتا ہے جس کی آگ سے دوزخ پھر بھڑکنے لگتی ہے۔ بغوی نے بروایت زکریابن ابومریم خزاعی بیان کیا ہے کہ حضرت ابوامامہ باہلی نے فرمایا، جہنم کے بالائی کنارہ سے گہرائی تک اتنی دور ی ہے کہ موٹی دس ماہ عظیم الجثہ اونٹنیوں کے برابر اگر کوئی پتھر یاچٹان اوپر سے نیچے کو لڑھکائی جائے توستر برس کی مسافت طے کرکے نیچے پہنچے، یہ سن کر عبدالرحمن بن خالد بن ولید کے آزاد کردہ غلام نے دریافت کیا کہ حضرت کیا اس کے نیچے بھی کچھ ہے ؟ حضرت ابوامامہ نے فرمایا ہاں غی اور اثام ہے۔ ضحاک نے کہا اس سے مراد گمراہی اور خسارہ ہے بعض نے کہا کہ اس سے مراد ہلاکت ہے اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد عذاب ہے ، فسوف یلقون غیا، اس کا معنی یہ نہیں کہ فقط وہ دیکھیں بلکہ معنی یہ ہے کہ اجتماع ملابست ہے روئیت کے ساتھ ساتھ۔
Top