Ashraf-ul-Hawashi - An-Najm : 28
فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا١٘ ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّا١ۙ قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ١ؕ بَلْ هِیَ فِتْنَةٌ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب مَسَّ : پہنچتی ہے الْاِنْسَانَ : انسان ضُرٌّ دَعَانَا ۡ : کوئی تکلیف وہ ہمیں پکارتا ہے ثُمَّ اِذَا : پھر جب خَوَّلْنٰهُ : ہم عطا کرتے ہیں اس کو نِعْمَةً : کوئی نعمت مِّنَّا ۙ : اپنی طرف سے قَالَ : وہ کہتا ہے اِنَّمَآ : یہ تو اُوْتِيْتُهٗ : مجھے دی گئی ہے عَلٰي : پر عِلْمٍ ۭ : علم بَلْ هِىَ : بلکہ یہ فِتْنَةٌ : ایک آزمائش وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے نہیں
اور ان کو اس بات کی کوئی تحقیق نہیں ہے کہ فرشتے عورت ذات ہیں وہ اور کچھ نہیں صرف اٹلک گمان پر چلتے ہیں اور گمان وہاں کچھ کام نہیں آتا جہاں پر یقین چاہیے1
1 یعنی اعتقادیات کے باب میں ظن وتخمین کافی نہیں ان کی بنیاد یقین پر ہونی ضروری ہے البتہ عملی مسائل کی بنیاد ظن پر ہوسکتی ہے۔ اس لئے قرآن و حدیث میں نص صریح نہ ملنے کی صورت میں قیاس و اجتہاد بھی کام دے سکتا ہے۔
Top