Tafseer-e-Baghwi - Maryam : 71
وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا١ۚ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْكُمْ : تم میں سے اِلَّا : مگر وَارِدُهَا : یہاں سے گزرنا ہوگا كَانَ : ہے عَلٰي : پر رَبِّكَ : تمہارا رب حَتْمًا : لازم مَّقْضِيًّا : مقرر کیا ہوا
اور تم میں سے کوئی (شخص) نہیں مگر اسے اس پر گزرنا ہوگا۔ یہ تمہارے پروردگار پر لازم اور مقرر ہے۔
71۔ وان منکم الاواردھا، ، نہیں ہے کوئی جو اس کے اوپر سے نہ گزرے اور بعض نے کہا کہ اس میں قسم پوشیدہ ہے اس کا معنی ہے ، واللہ مامنکم من احد الاواردھا، ،۔ وان منکم الاواردھا کی مختلف تفسیریں۔ وارد کہتے ہیں کہ مکان کا موافق آجانا، ورد کے معنی میں آئمہ مفسرین کا آپس میں اختلاف ہے ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ اور اکثر مفسرین کا قول ہے کہ ورد کا معنی دخول ہے اور کنایہ یہ راجع ہے۔ آگ میں دخول کے ساتھ اور ان لوگوں نے کہا کہ معنی یہ ہوگا کہ اس آگ میں نیک اورفاجر سب داخل ہوں گے۔ پھر اللہ متقین کو نجات دے دیں گے اور اس آگ سے نکال دیں گے اس دلیل کا حاصل یہ ہوگا کہ ورد سے مراد دخول ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے بارے میں کہا، یقدم قومہ یوم القیامۃ فاوردھم النار، ،۔ ابن عیینہ سے مروی ہے کہ عمرو بن دینار کی روایت سے بیان کیا کہ نافع بن ارزق نے حضرت ابن عباس ؓ سے ورد کے معنی کی تشریح میں کچھ اختلاف کیا ہے۔ ابن عباس کے نزدیک کہ اس کا معنی دخول ہی ہے۔ نافع کا قول ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہاں ورد سے مراد دخول نہیں، اس پر حضرت عبداللہ بن عباس نے اس کے استشہاد کے لیے یہ آیت تلاوت کی، ، انکم وماتعبدون من دون اللہ حصب جھنم انتم لھاواردون۔ کہ اسمیں وہ داخل ہوں گے یا داخل نہیں ہوں گے ۔ پھر فرمایا اے نافع تم اور میں سب اسی میں داخل ہوں گے مجھے تو امید ہے کہ اللہ مجھے نکال لے گا لیکن میراخیال ہے کہ تجھے نہیں نکالے کیونکہ تو داخل ہونے کا ہی منکر ہے۔ ایک قوم کا قول ہے کہ اس سے مراد دخول ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ مومن کبھی دوزخ میں داخل نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ کا فرمان، ان الذین سبقت لھم مناالحسنی اولئک عنھا مبعدون لایسمعون حسیسھا، ، اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ جن کو دوزخ میں ڈال دیاجائے گا، وہ کبھی باہر نہیں نکل سکیں گے، اللہ تعالیٰ کے فرمان ، وان منکم الاواردھا، کا یہی مطلب ہے اس سے اس میں حاضر ہونا اور دیکھنا مراد ہے نہ کہ اس میں داخل ہونا، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے، ولم اور دماء مدین، ، اس سے مراد وہاں حاضر ہونا ہے۔ عکرمہ کا بیان ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے آیت مذکورہ کی تشریح میں فرمایا، دوزخ میں داخل ہوئے بغیر کوئی نہیں رہے گا، اس سے کنایہ یہ مراد لیا ہے کہ اس کی طرف لوٹے گا۔ ابن مسعود نے آیت، وان منکم الاواردھا، کے متعلق بیان کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ سب لوگ دوزخ پر اتریں گے ، اس کے بعد اپنے اپنے اعمال کے موافق وہاں سے نکال لیے جائیں گے ، اول شخص بجلی چمکنے کی طرح پھر ہوا کی طرح، پھر گھوڑے کی تیز دوڑ کی طرح پھر اونٹ کی دوڑ کی طرح جس پر سامان لدا ہواہوپھرآدمی کے دوڑنے کی طرح پھر آدمی کی معمولی رفتار کی طرح۔ حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں کہ وان منکم الاواردھا، ، سے مراد قیامت ہے ۔ اول زیادہ صحیح ہے۔ اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے کہ پہلے سب کو دوزخ میں داخل کیا جائے گا، پھر اہل ایمان کو دوزخ سے نکال دیاجائے گا، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے ، ثم ننجی الذین اتقوا، ، جو شرک سے بچتے رہے وہی مومنین ہیں اور نجات کسی چیز کے دخول کے بعد ہوتی ہے نہ کہ اس کے اوپر سے گزر جانے کے ساتھ۔ سعید بن مسیب حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ ایسا نہیں کہ کسی مسلمان کے تین بچے مرجائیں اور وہ آگ میں داخل ہو۔ وہاں صرف قسم پوری کرنے کے لیے اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی، وان منکم الاواردھا،۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم سے روایت کرتے ہیں کہ دوزخ سے اس شخص کو بھی نکالاجائے گا، جو لاالہ الا اللہ کہے اور اس کے دل مٰں ایک جو کے دانے کے برابر نیکی ہو اورآگ سے اس شخص کو بھی نکالاجائے گا جس نے لاالہ اللہ کہا اور اس کے دل میں گندم کے ایک دانے کے برابر خیر ہو اور اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ سے نکال دیں گے جس نے لاالہ الا اللہ کہا، اور اس کے دل میں نیکی کا ایک ذرہ موجود ہو۔ ابان عن قتادہ سے منقول ہے کہ ان کے نزدیک من ایمان کی جگہ من خیرذکر کیا ہے۔ انس بن مالک ؓ نبی کریم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص دوزخ میں ایک ہزار سال تک آواز دیتا رہے گا، اے حنان، اے منان، اللہ عزوجل جبرائیل (علیہ السلام) کو فرمائیں گے کہ جاؤ اور اس شخص کو میرے پاس لے آؤ، کہتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) اس شخص کو پائیں گے جو رو رہے ہوں گے۔ فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) واپس لوٹیں گے، اللہ عزوجل کو اس کے متعلق بتلائیں گے فرمایا کہ جاؤ وہ فلاں فلاں جگہ پر ہوگا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ جائیں گے۔ پھر حضرت جبرائیل اس شخص کو لے کر اللہ رب العزت اس شخص سے کہیں گے کہ تم نے اپنی جگہ اور اپنے ٹھکانے کو کی سے پایا، وہ کہے گا اے میرے رب ! وہ برا مکان اور براٹھکانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہیں گے میرے بندے کو واپس لوٹا دو وہ بندے کہے گا میں امید کرتا ہوں جس شخص کو ایک دفعہ دوزخ سے ن کال دیاجائے اس کو واپس نہیں لوٹایاجائے گا، اللہ عزوجل فرمائیں گے فرشتوں سے کہ میرے بندے کو بلاؤ، اللہ عزوجل کے فرمان ، لایسمعون حسیسھا، کا یہی مطلب ہے ۔ بعض حضرات نے کہا کہ اللہ تعالیٰ جنت میں اس وقت کا تذکرہ کیا کہ جنت میں لوگ اس وقت بری بات نہیں سنیں گے، اور یہ بات جائز ہے کہ وہ یہ بات جنت میں دخول سے پہلے سن لیں کیونکہ اس بات کا تذکرہ نہیں کہ وہ بری بات نہیں سنیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنت میں دخول کے وقت یہ بات سن لیں کیونکہ جنت میں دخول کے بعد ان کو سلامتی ہی سلامتی ہوگی۔ خالد بن معدان کا قول ہے کہ اللہ رب العزت جنتیوں سے فرمائیں گے کہ کیا تمہارے رب نے وعدہ نہیں کیا تھا، کہ تمہیں آگ پر سے وارد ہونا ہے ان کو کہاجائے گا کیوں نہیں لیکن تم اس کے اوپر سے گزر گئے ہو اور ایک حدیث میں منقول ہے کہ آگ مومنین سے کہے گی کہ تمہارایہ بدلہ ہے کہ تمہیں بچانے کے لیے ہمارے نور تپش کو ختم کردیا گیا، مجاہد سے مروی ہے کہ اللہ عزوجل کا قول ہے وان منکم الاواردھا، کہ مسلمانوں کے لیے اس گرمی کو ٹھنڈا کردیاجائے گا، اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ حمی بخار کو کہتے ہیں ، جو جہنمیوں کو دیاجائے گا، اور مومنین کو بھی تھوڑاسا آئے گا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نبی کریم سے روایت کرتی ہیں کہ بخار جہنم کی تپش ہے اس کو پانی سے بجھاؤ۔ کان علی ربک حتما مقضیا، کہ تمہارادوزخ کے اوپر سے گزرنا پختہ ہے۔ اور اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
Top