Tafseer-e-Baghwi - Maryam : 72
ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا
ثُمَّ : پھر نُنَجِّي : ہم نجات دینگے الَّذِيْنَ اتَّقَوْا : وہ جنہوں نے پرہیزگاری کی وَّنَذَرُ : اور ہم چھوڑ دینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) فِيْهَا : اس میں جِثِيًّا : گھٹنوں کے بل گرے ہوئے
پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پڑا ہوا چھوڑ دیں گے
72۔ ثم ننجی الذین اتقوا، ، شرک سے بچو۔ کسائی نے تنجی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور باقی نے تشدید کے ساتھ دلیل ہے اس میں سب داخل ہوں گے۔ پھر اس سے متقین کو نکالاجائے گا اور دوزخ میں ظالمین اور مشرکین کو چھوڑ دیاجائے گا۔ سعید بن مسیب اور عطاء بن یزید کا قول ہے کہ حضرت ابوہریرہ کو ان دونوں نے خبر دی کہ لوگ کہتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول ! کہ کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھ سکیں گے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم چودھویں رات کے چاند کو دیکھتے ہو جب کوئی بادل نہیں ہوتا، لوگوں نے کہاجی ہاں اے اللہ کے رسول۔ پھر فرمایا کہ کیا تم سورج کو دیکھتے ہو جب بادل نہ ہوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم اسی طرح قیامت کے دن اس کو دیکھو گے قیامت کے دن لوگوں کو جمع کیا جائے گا، جو شخص جس کی عبادت کرتا تھا وہ اسی کو اپنے ساتھ لائے گا، ان میں سے بعض وہ ہوں گے جو سورج کی پوجا کرتے تھے اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو چاند کی پوجا کرتے ہیں اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور اس امت کے منافقین رہ جائیں گے ان کو اللہ تعالیٰ کے پاس لایاجائے گا اللہ فرمائے گا میں تمہارا رب ہوں۔ جب اللہ عزوجل ان کے سامنے آئیں گے تو وہ پہچان لیں گے اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں تمہارا رب ہوں وہ کہیں گے آپ ہمارے رب ہیں اور پل صراط ان کے پیچھے ہوگی، میں اس امت میں سے پہلاشخص ہوں گا جس کو قیامت کے دن بولنے اور شفاعت کی اجازت ملے گی اور اس دن کوئی بھی بات نہیں کرسکے گا، مگر رسول اللہ اور اس دن رسولوں کا کلام سلام سلام ہے اور جہنم میں کلالیب ہوں گے ۔ نیز جہنم میں سعد ان کے کانٹوں جیسے آنکڑے ہوں گے ، ان آنکڑوں کی لمبائی اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، کیا تم نے ، شوک السعدان ، ، دیکھے ہیں وہ کہیں گے جی ہاں پھر فرمایا، شوک السعدان کے مثل ان کی عظمت کی قدر اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہوگی ۔ لوگوں کو ان کے اعمال کے مناسب اٹھایاجائے گا، ان میں سے بعض جو اپنے اعمال کی وجہ سے منہ کے بل گریں گے اورا ن میں سے بعض جو تھوڑی دیر اس میں گریں گے پھر نجات پالیں گے ۔ یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی نکالنے کا ارادہ کرے گا جس نے یہ کہا ہوگا، اشھد ان لاالہ الا اللہ ، اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہیں گے ان کو دوزخ سے نکالو جو میری عبادت کرتے تھے۔ چنانچہ فرشتے ان لوگوں کو دوزخ سے نکالیں گے اور انکی پیشانیوں پر سجدہ کے نشانات کے ذریعہ ان کی شناخت کریں گے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی آگ پر یہ حرام کردیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشان کو کھالے ، اس لیے دوزخ کی آگ ابن آدم کے سارے جسم کو کھاجائے گی مگر سجدوں کے نشان کو نہیں کھائے گی ، بہرحال وہ لوگ دوزخ سے اس حالت میں باہر لائے جائیں گے کہ وہ آگ میں جل کرسیاہ ہوچکے ہوں گے پس ان پر آب حیات چھڑکاجائے گا، اور وہ اس طرح تروتازہ ہوجائیں گے جس طرح سیلاب کے کوڑے کچرے میں پڑا ہوادانہ اگتا ہے۔ سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والے شخص کا رب کے ساتھ مکالمہ۔ اور ایک شخص جو دوزخیوں میں سے جنت میں داخل ہونے والا، آخری شخص ہوگا، جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا رکھا جائے گا اس کا منہ دوزخ کی طرف ہوگا، وہ عرض کرے گا کہ میرے پروردگار میرا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے دوزخ کی آگ کی بدبو نے مجھے سخت اذیت میں مبتلا کررکھا ہے اور اس کے شعلوں کی تیزی و گرمی مجھے بھسم کیے دے جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کہ اگر میں ایسا کردوں تو ہوسکتا ہے کہ تو پھر کچھ اور بھی مانگنے لگے۔ وہ شخص عرض کرے گا تمہیں تمہاری عزت کی قسم، مین اور کچھ نہیں مانگوں گا، پھر وہ کچھ عہد و پیمان کرے گا جو اللہ تعالیٰ چاہے گا، اور اللہ تعالیٰ اس شخص کا منہ دوزخ کی طرف سے پھیردے گا، مگر جب اس کا منہ جنت کی طرف پھیر دے گا اور وہ جنت کی زیبائش و آرائش اور تروتازگی دیکھے گا تو اس وقت تک خاموش رہے گا، جب تک خدا چاہے گا اور پھر عرض کرے گا، کہ میرے پروردگار مجھے جنت کے دروازے تک پہنچادے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گاکیاتو نے عہد و پیمان نہیں کیا تھا، کہ تو اپنی اس درخواست کے علاوہ کوئی درخواست پیش نہیں کرے گا، اور گڑگڑائے گا کہ میرے پروردگار تو مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ بنا، مگر جب وہ جنت کے دروازے تک پہنچے گا اور جنت کی چمک دمک اور اس کے اندر کی چیزوں کے ٹھاٹ باٹ دیکھے گا تو پہلے اس وقت تک خاموش رہے گا، جب تک خدا چاہے گا اور پھر عرض کرے گا کہ میرے پروردگار مجھے جنت کے اندر پہنچادیجئے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ابن آدم ! افسوس تو کس قدر عہد شکن ہے اور وعدہ فراموش ہے ؟ کیا تو نے عہد و پیمان نہیں کیا تھا، کہ تو اپنی اس درخواست کے علاوہ جو تیری خواہش کے مطابق منظور کرلی گئی تھی کوئی اور درخواست پیش نہیں کرے گا، وہ عرض کرے گا کہ میرے رب، مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ بنا، غرض کہ وہ اسی طرح گڑگڑاتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ اس سے را آضی ہوجائے اور اللہ تعالیٰ جب راضی ہوجائے گا تو اس کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دے گا۔ پھر فرمائے گا کہ تو اورجو کچھ آرزو اور خواہش رکھتا ہو تو اس کو ظاہر کر اورجو کچھ مانگنا چاہتا ہے مانگ لے۔ چناچہ وہ اپنی آرزوئیں بیان کرے گا اور جب اپنی آخری آروزو بھی پوری کرالے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فلاں فلاں چیز کی بھی خواہش کیوں نہیں ظاہر کرتا ! گویا پروردگار اس کو یاد دلاناچا ہے گا کہ تونے فلاں فلاں چیز تو مانگی ہی نہیں ان چیزوں کو بھی مانگ لے میں آج تجھے ہرچیز عطا کروں گا، یہاں تک کہ جب وہ آرزوئیں بھی پوری ہوجائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ نہ صرف یہ تمام چیزیں تیرے لیے ہیں بلکہ ان ہی جیسی مزید نعمتیں تجھے عطا کی جاتی ہیں اور حضرت ابوسعید کی روایت میں یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گانہ صرف یہ تمام چیزیں تیرے لیے ہیں بلکہ ان کے ساتھ دس گنا اور نعمتیں عطا کی جاتی ہیں۔ اس پر حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے اس حدیث کے یہ الفاظ بہت خوب یاد ہیں کہ آپ نے فرمایا تھا، (لک ذالک) و مثلہ معہ، ابوسعید فرماتے ہیں کہ میں نے اسی طرح سنا اور میں نے آپ سے یہ الفاظ اس طرح نقل کیے ، لک وعشرۃ امثالہ، اور محمد بن اسماعیل بخاری نے یہ روایت اس طرح نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے پاس آئیں گے ۔ ایسی صورت کے ساتھ جس سے وہ پہچان نہیں سکیں گے ، اللہ ان سے کہے گا، میں تمہارا رب ہوں وہ کہیں گے ہم اس جگہ سے پناہ مانگتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کو رب کے پاس پہنچایاجائے گا، جب وہ اللہ رب العزت کے پاس آئیں گے ان کو پہچان لیں گے اس وقت اللہ تعالیٰ اس صورت میں ان کے سامنے آئیں گے کہ یہ لوگ ان کو پہچان لیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں تمہارا رب ہوں تو وہ کہیں گے تو ہمارا رب ہے تو اس کی پیروی کرنے لگیں گے۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا اہل توحید کو جہنم میں سزا دی جائے گی، یہاں تک کہ وہ کوئلہ ہوجائیں گے پھر ان پر رحمت پڑے گی ، فرماتے ہیں کہ وہ جہنم سے نکلیں گے اور جنت کے دروازوں کے سامنے ان کو ڈال دیاجائے گا، فرمایا کہ اہل جنت ان پر پانی پھینکیں گے تو وہ اس طرح اگیں گے جس طرح گارے سے دانا اگتا ہے پھر ان کو جنت میں داخل کردیاجائے گا۔ سب سے ادنی جنتی کو بھی جنت میں دس گنا عطا کیا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا کہ میں جانتا ہوں جس شخص کو سب سے آخر میں دوزخ سے نکالاجائے گا، اس کو کہاجائے گا، اس طرف سے پھر جا اور جنت میں چلا جا۔ آپ نے ارشاد فرمایا وہ جائے گاتا کہ جنت میں داخل ہوجائے وہ دیکھے گا کہ لوگوں نے تو اپنی اپنی جگہیں سنبھال لی ہیں، وہ لوٹ آئے گا اور کہے گا، اور میرے رب ، لوگوں نے تو اپنی اپنی جگہیں سنبھال لی ہیں اس کو کہاجائے گا، کہ کیا تمہیں وہ زمانہ یاد ہے جس زمانے میں تونے گزارہ کیا وہ کہے گا، جی ہاں ، اس کو کہاجائے گا توتمنا کر، پس وہ تمنا کرے گا اس کو کہا جائے گا، وہ تیرے لیے ہے جو تونے تمنا کی اور اس سے دس گنا تیرے لیے ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ کہے گا اے میرے رب ! تو مجھ سے مذاق کرتا ہے حالانکہ توبادشاہوں کا بادشاہ ہے، آپ ؓ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے دیکھا آپ ﷺ مسکرائے۔ یہاں تک کہ ان کے دانت مبارک ظاہر ہوگئے۔ حضرت حفصہ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ میں امید کرتا ہوں کہ اگر اللہ چاہے توشہداء بدر اور حدیبیہ والے دوزخ میں داخل نہیں ہوں گے۔ فرماتی ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا اللہ تعالیٰ نے ارشاد نہیں فرمایا، ، وان منکم الاواردھا کان علی ربک حتما مقضیا، ، فرمایا کہ کیا تو نہیں سنتی یہ کہتے ہوئے ، ثم ننجی الذین اتقوا ونذرالظالمین فیھا جثیا، ،۔
Top