Tafseer-e-Baghwi - An-Naml : 25
اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْءَ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ
اَلَّا : کہ نہیں يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ : وہ سجدہ کرتے اللہ کو الَّذِيْ : وہ جو يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْخَبْءَ : چھپی ہوئی فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَيَعْلَمُ : اور جانتا ہے مَا تُخْفُوْنَ : جو تم چھپاتے ہو وَمَا : اور جو تُعْلِنُوْنَ : تم ظاہر کرتے ہو
کہ خدا کو جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو ظاہر کردیتا اور تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اعمال کو جانتا ہے کیوں نہ سجدہ کریں
25۔ الایسجدوا، ، ابوجعفر کسائی نے ، الایسجدوا ، تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ جب وہ کھڑے ہوتے ہیں تویوں کہتے ہیں، ، الایاثم، اے گناہ گار کیا تم اللہ کو سجدہ نہیں کرتے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ، الایاھو ا اسجدوا، یہ جملہ امر یہ مستانفہ ہے بعض نے کہا کہ یہ عرب سے اسی طرح سماعا منقول ہے جیسے عرب کے ہاں یہ مشہور ہے ، الایا ارحمون، اسی طرح یہاں بمعنی کلمہ معترضہ کے ہے۔ عبارت یوں تھی ، امامن الھد ھد واما من سلیمان، ابوعبیدہ کا قول ہے کہ اللہ کا مذکورہ حکم جملہ مستانفہ ہے۔ یعنی اے لوگو، اللہ کو سجدہ کرو۔ دوسرے قراء نے ، الایسجدوا ، تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ مطلب یہ ہوگا کہ شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے مزین کردیا تاکہ یہ اس کو سجدہ کریں۔ للہ الذی یخرج الخبا، یعنی پوشیدہ چھی ہوئی بات۔ فی السماوات والارض، زمین اور آسمان میں اس سے کوئی چیز بھی چھی ہوئی نہیں۔ اکثر اہل تفسیر کا قول ہے کہ ، خباء السموات اور خباء الارض، منبرہ کو کہتے ہیں اور عبداللہ کی یہی قرات ہے۔ یخرج الخبا من السماوات والارض، اور اس میں جو کچھ بھی ہے وہ اپنی رفتار سے چل رہا ہے۔ عرب کا قول ہے کہ میں تمہی اس شہر سے نکالوں گا جس کا ہم نے ارادہ کیا ہے ۔ بعض نے کہا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ غیب ، آیات کا مطلب ہے کہ وہ آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ اشیاء کو جانتا ہے۔ ” ویعلم ماتخفون وماتعلنون، کسائی نے حفص عن عاصم سے بیان کیا کہ یہ تاء کے ساتھ ہے کیونکہ پہلی قرات میں خطاب کا صیغہ ہے اور کسائی نے قرات پر تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ دوسرے قراء نے یاء کے ساتھ پڑھا ہے۔
Top